'کون سوچ سکتا تھا کہ میں حسینہ عالم بنوں گی'

اس سال حسینہ عالم کا اعزاز جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والی سیاہ فام لڑکی زوزی بینی تونزی نے جیت لیا ہے۔ وہ یہ تاج پہننے والی جنوبی افریقہ کی تیسری خاتون ہیں۔

مقابلہ حسن جیتنے کے بعد امریکی ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا میں ایک ٹیلی وژن شو میں گفتگو کرتے ہوئے تونزی نے بتایا کہ بچپن میں انہیں عورتیں عام سی لڑکی تصور کرتی تھیں۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ یہ لڑکی خوبصورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں جس دنیا میں پلی بڑھی، وہاں میری جیسی دکھائی دینے والی لڑکیاں اور عورتیں، جن کی جلد کی رنگت اور بال میرے جیسے ہوتے ہیں، انہیں کبھی خوبصورت نہیں سمجھا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس انداز کی سوچ کو ترک کیا جائے۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے جیسی رنگت کے بچے مجھ پر نظر ڈالیں، میرا چہرہ دیکھیں اور میں چاہتی ہوں کہ وہ اپنے چہروں میں میرا عکس دیکھیں۔

اٹلانٹا میں حسینہ عالم کا مقابلہ جیتنے والی زوزی بینی تونزی

پروگرام کے میزبان اسٹیو ہاروے نے پوچھا کہ آپ کے نزدیک آج کے معاشرے کو نوجوان لڑکیوں کو کیا پڑھانے پر توجہ دینی چاہیے؟

26 سالہ تونزی کا جواب تھا کہ ان کے خیال میں لڑکیوں کو لیڈرشپ کی تربیت دینی ضروری ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے ہمارے معاشروں میں لڑکیاں اور عورتیں صدیوں سے محروم چلی آرہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ عورتیں اور لڑکیاں قیادت نہیں کرنا چاہتیں بلکہ یہ ہے کہ معاشرہ ان پر عورت کا لیبل لگاکر انہیں اس شعبے سے الگ کردیتا ہے۔

سیاہ فام حسینہ عالم کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں دنیا کی سب سے مضبوط اور طاقت ور مخلوق عورت ہے۔ انہیں ہر طرح کے مواقع فراہم کریں۔ ہمیں نوجوان لڑکیوں کو بتانا چاہیے کہ وہ ہر شعبے میں اپنے لیے جگہ بنائیں۔

سوال جواب کے ایک اور مرحلے میں تونزی نے آب و ہوا کی تبدیلی پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ چھٹی جماعت میں تھیں، اس وقت سے یہ سنتی آرہی ہیں کہ گلوبل وارمنگ بڑھ رہی ہے اور اس کا اثر پوری دنیا پر مرتب ہورہا ہے۔ ہمارا سیارہ تباہ ہورہا ہے۔ اگر اسے نہ روکا گیا تو زمین رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کو اس مہم میں حصہ لینا چاہیے اور اپنے سیارے کو محفوظ بنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنی چاہیئں۔

اس سال پہلا موقع تھا کہ عالمی مقابلہ حسن میں ایک ٹرانس جینڈر نے بھی حصہ لیا۔ وہ میانمر سوزن ہٹ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ پلیٹ فارم برما میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے مسائل سامنے لانے کے لیے استعمال کررہی ہیں اور اس کا مثبت اثر ہو رہا ہے۔