بلوچستان میں ہندو برداری کے افراد کے اغواء کے واقعات پر تشویش

(فائل فوٹو)

انسانی حقوق کی غیر جانبدار تنظیم ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ نے بلوچستان میں اقلیتی ہندو برادری کے لوگوں کے اغوا برائے تاوان اور اُن کی صوبے سے نقل مکانی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

زہرہ یوسف (فائل فوٹو)



ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بلوچستان میں ہندو آبادی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ رواں سال مئی میں ان کی تنظیم نے بلوچستان کا دورہ کر کے صوبے کے حالات پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق اس وقت تک ہندو برداری کے 50 افراد کو اغواء کیا جا چکا تھا اور ان کے بقول اب یہ تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔

’’کئی بچے اور کاروباری برداری سے تعلق رکھنے والے افراد اغواء ہوئے ہیں۔ ہندوؤں کے ایک مذہبی پیشوا کو بھی اغوا کیا گیا تھا جو کافی دن بعد اپنے گھر واپس آئے تھے۔ یہ صورت حال ہے جس کی وجہ سے وہاں سے نقل مکانی ہو رہی اور ظاہر ہے ایک تشویش کی بات ہے۔‘‘

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے مشیر برائے انسانی حقوق مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بتایا کہ حکومت بلوچستان میں ہندو برادری کے تحفظات سے آگاہ ہے اور ان کے ازالے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ’’ہم اس سے آگاہ ہیں کہ بلوچستان میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد نے نقل مکانی بھی کی ہے۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ صوبے میں آباد تمام اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

بلوچستان میں عہدیداروں نے اس سے قبل انکشاف کیا تھا کہ اغواء برائے تاوان اور ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات میں اضافے کے بعد سے صوبے میں آباد اقلیتی ہندو برادری کے کئی خاندانوں نے بھارت میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوششیں بھی شروع کر رکھی ہیں۔

قدرتی وسائل سے مالا مال پاکستان کے اس جنوب مغربی صوبے میں حالیہ برسوں کے دوران تشدد کے واقعات اور ملک کے حصوں سے آ کر یہاں آباد ہونے والے خاندانوں پر جان لیوا حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ایچ آر سی پی نے بلوچستان کے بارے میں اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ صوبے میں قیام امن کے لیے فوری اقدامات کرے بصورت دیگر حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے گزشتہ ہفتے بلوچستان کے ہونہار طلبا و طالبات سے خطاب میں کہا تھا کہ حکومت بلوچ عوام کے احساس محرومی دور کرنے اور امن و امان کے قیام کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لا رہی ہے۔

وفاقی حکومت نے پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں کی ایک نمائندہ کمیٹی بھی تشکیل دے رکھی ہے جو حالات کا جائزہ لے کر بلوچستان میں دیرپا قیام امن کے لیے تجاویز پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔