امریکہ کی ریاست منیسوٹا میں تین صومالی نژاد امریکی شہریوں پر شدت پسند گروپ داعش کو معاونت فراہم کرنے کے الزام میں مقدمہ چلانے کے لیے جیوری کا انتخاب شروع کر دیا گیا ہے۔
ان ملزمان میں 22 سالہ محمد فراح، 21 سالہ گلید عمر اور 22 سالہ عبدالرحمن داؤد شامل ہیں۔ یہ تینوں منیسوٹا کے ان متعدد افراد میں شامل ہیں جو مارچ 2014ء سے اپریل 2015ء کے دوران کئی بار ایک دوسرے سے ملے تاکہ داعش میں شمولیت کے لیے شام جانے کا بہترین راستہ تلاش کر سکیں۔
انھیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہوائی جہاز پر سوار ہونے سے قبل گرفتار کر لیا تھا۔
وفاقی استغاثہ کا کہنا ہے کہ ان تینوں پر امریکہ سے باہر قتل کرنے کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام ہے اور اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے تو انھیں عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ ملزمان اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔
صومالی نژاد ایک امریکی سرگرم کارکن صادق ورفا نے وائس آف امریکہ کی صومالی سروس کو بتایا کہ ان تین ملزمان میں سے ایک نے اپنا وکیل تبدیل کرنے کی استدعا کی کیونکہ اسے اس پر اعتماد نہیں۔ لیکن ان کے بقول جج نے اس درخواست کو مسترد کر دیا۔
ورفا پیر کو ہونے والی عدالتی کارروائی کے دوران عدالت میں موجود تھے۔
اسی گروپ کے چھ دیگر افراد اس جرم کا اعتراف کر چکے ہیں کہ انھوں نے داعش کو معاونت فراہم کرنے کی سازش کی۔ ایک اور شخص پر بھی فرد جرم عائد کی جا چکی ہے لیکن اس کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ وہ شام میں داعش میں شامل ہو چکا ہے۔
تینوں ملزمان کے والدین نے بھی اپنے بچوں پر لگایا جانے والا الزام مسترد کیا ہے۔
منیسوٹا کے سب سے بڑے شہر منیاپولیس میں صومالیہ سے تعلق رکھنے والی بہت بڑی تعداد آباد ہے اور امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ شہر انتہا پسندوں کے لیے بہت "زرخیر" ہو سکتا ہے۔
2007ء سے لگ بھگ ایک درجن صومالی امریکی شہری دہشت گرد گروپوں میں شمولیت کے لیے پہلے صومالیہ اور حالیہ برسوں میں شام جا چکے ہیں۔