برکینا فاسو: فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا

اقتدار پر قبضہ کرنے والے جنرل ڈیانڈیرے

فوج کی جانب سے تشکیل دی جانے والی حکومتی کونسل کے سربراہ نے کہا ہے ملک کے عبوری صدر اور وزیرِاعظم بحفاظت فوج کی تحویل میں ہیں جنہیں جلد رہا کردیا جائے گا۔

مغربی افریقہ کے ملک برکینا فاسو میں فوج نے عبوری حکومت کو برطرف کرنے کے بعد اقتدار سنبھال لیا ہے۔

فوج کی جانب سے تشکیل دی جانے والی حکومتی کونسل کے سربراہ نے کہا ہے ملک کے عبوری صدر اور وزیرِاعظم بحفاظت فوج کی تحویل میں ہیں جنہیں جلد رہا کردیا جائے گا۔

جمعرات کو 'وائس آف امریکہ' کی 'فرینچ ٹو افریقہ' سروس سے گفتگو کرتے ہوئے بریگیڈیئر جنرل گلبرٹ ڈیانڈیرے نے فوجی بغاوت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا سیاسی نظام جانبداری سے چلایا جارہا تھا جس کے باعث فوج کو مداخلت کرنا پڑی۔

انہوں نے کہا کہ ان کی سربراہی میں قائم کونسل جلد تمام سیاسی جماعتوں کےساتھ مشاورت کا آغاز کرے گی جس کے بعد عام انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کیا جائے گا۔

برکینا فاسو میں عوامی مزاحمت اور احتجاجی تحریک کے بعد 27 سال سے برسرِ اقتدار صدر بلیس کمپاؤرے کو گزشتہ سال اکتوبر میں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا جس کےبعد رواں سال 11 اکتوبر کو نئے انتخابات ہونا تھے۔

صدر کمپاؤرے کے بعد اقتدار سنبھالنے والی عبوری حکومت نے معزول صدر کے حامیوں اور ان کی حکومت میں شریک افراد کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی کردی تھی جس کے بعد ملک میں سیاسی بے چینی میں اضافہ ہوا تھا۔

عبوری حکومت کی جانب سے سیاسی محاذ آرائی کے خاتمے کے لیے قائم کیے جانے والے 'قومی مفاہمتی کمیشن' نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں صدر کی حفاظت پر مامور فورس ختم کرنے کی سفارش کی تھی جس میں رپورٹ کے مطابق معزول صدر کے حامیوں کی اکثریت ہے۔

باغی دستوں کے سربراہ جنرل ڈیانڈیرے معزول صدر کمپاؤرے کے دیرینہ ساتھی ہیں جو گزشتہ تین دہائیوں سے ان کے غیر اعلانیہ فوجی مشیر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔

تاہم جنرل ڈیانڈیرے نے واضح کیا ہے کہ ان کی بغاوت کا معزول صدر سے کوئی تعلق نہیں اور وہ ان کے خلاف جاری تحقیقات میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔

مغربی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل ڈیانڈیرے نے کہا ہے کہ مفاہمتی کمیشن کی جانب سے صدر کی محافظ فورس کی تحلیل کی سفارش کے بعد فوج کو عبوری حکومت کے خلاف حرکت میں آنا پڑا ہے۔

اس سے قبل بدھ کو ایک فوجی افسر نے سرکاری ٹی وی پر اعلان کیا تھا کہ فوج نے عبوری حکومت تحلیل کردی ہے جب کہ عبوری صدر مائیکل کفانڈو کو ان کے عہدے سے فارغ کردیا گیا ہے۔

بیان کے مطابق سینئر سرکاری افسران حکومتی امور انجام دیں گے جن کی نگرانی کے لیے فوج نے اپنے افسران پرمشتمل 'نیشنل کونسل آف ڈیمو کریسی' تشکیل دی ہے جس کے سربراہ جنرل ڈیانڈیرے ہوں گے۔

بغاوت کے فوراً بعد فوجی اہلکاروں نے ملک کے بیشتر نجی ٹی وی چینل اور ریڈیو اسٹیشن بند کرادیے ہیں جب کہ دارالحکومت کی شاہراہوں پر فوجی دستے گشت کر رہے ہیں۔

معزول صدر کی مخالف سیاسی جماعتوں کی اپیل پر بعض علاقوں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں جن کے شرکا کو منتشر کرنے کے لیے فوج نے طاقت استعمال کی ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق دارالحکومت میں فوجی دستوں اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم تین افراد مارے گئے ہیں۔

نئی فوجی انتظامیہ نے ملک کی زمینی اور فضائی سرحدیں بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ملک بھر میں شام سات بجے سے صبح 6 بجے تک کرفیو نافذ کردیا ہے۔

اقوامِ متحدہ، امریکہ، برکینا فاسو کے سابق نو آبادیاتی حکمران فرانس سمیت کئی مغربی ملکوں نے فوجی بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے باغیوں سے گرفتار سیاسی رہنماؤں کا مطالبہ کیا ہے۔

وہائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے کہا ہے کہ اوباما انتظامیہ برکینا فاسو میں اقتدار پر قبضے کے ماورائے آئین اقدامات کی سخت مذمت اور وہاں جاری پرتشدد واقعات کی فوری روک تھام کا مطالبہ کر تی ہے۔