افغانستان کے شہر غزنی میں ہونے والی لڑائی میں مارے گئے جنگجوؤں کی لاشیں مبینہ طور پر پاکستان کے حوالے کی جا رہی ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے راہنما افراسیاب خٹک نے ایک ٹویٹ میں پاکستانی حکام سے وضاحت کا مطالبہ کیا ہے۔
افراسیاب خٹک نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ غزنی کی لڑائی میں حصہ لینے اور مارے جانے والے پاکستانی عسکریت پسندوں کے حوالے سے پاکستانی حکومت کو وضاحت کرنا ہو گی۔ اُنہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ 1989 میں ہونے والے جلال آباد واقعے کا احیاء ہے؟ اُنہوں نے مذید کہا کہ پاکستان کی افغان پالیسی یقینی طور پر تباہ کن ہے۔ اسے تبدیل ہونا چاہئیے۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ ’’اس لڑائی میں بہت سے پاکستانی، چیچن اور عرب جنگجو بھی شامل تھے‘‘۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز اور تصاویر میں لڑائی میں ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کو ان کے گھروں میں لاتا دکھایا گیا ہے۔
اُدھر افغانستان کے خفیہ ادارے این ڈی ایس کے سابق سربراہ رحمشلہ نبیل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کہا ہے کہ افغانستان میں زخمی جنگجوؤں کو پشاور اور بلوچستان کے ہسپتالوں میں علاج کیلئے لایا گیا ہے۔
تاہم پاکستان کے دفترِ خارجہ نے ان دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔
جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران ایک سوال پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے کہا کہ پاکستان کو ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جن سے ان الزامات کی تصدیق ہوسکے۔
افغانستان کے سینئر صحافی مریالے عباسی کہتے ہیں کہ این ڈی ایس کے پاس اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ پاکستانی جنگجو سرحد پار کر کے قندھار اور ہلمند میں داخل ہوتے رہے ہیں جہاں وہ طالبان کے ساتھ مل کر سرکاری فوجوں سے لڑتے رہے ہیں۔ تاہم پاکستان کی آئی ایس ائی کے سابق سربراہ حامد سعید ان باتوں کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عبوری حکومت کے دور میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ اُن کے مطابق اس بات کا امکان موجود ہے کہ جنگجو پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے کیمپوں سے نکل کر کارروائی کیلئے افغانستان جاتے ہوں۔
غزنی کے مقامی حکام کا کہنا ہے کہ حکومت مخالف طالبان شہر سے بھاگ کر دیگر علاقوں میں چلے گئے ہیں اور شہر کا کنٹرول اب مکمل طور پر افغان سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں میں ہے۔
حکام نے بتایا ہے کہ ان علاقوں میں جہاں جنگجو عمارتوں میں روپوش ہیں، وہ مزاحمت نہیں کر سکتے اور ان کے خلاف افغان سیکیورٹی فورسز اب بھی آپریشن میں مصروف ہیں۔
غزنی کے نائب گورنر ڈاکٹر امین مبلغ نے ’وائس آف امریکہ‘ کے ’ڈیوا ریڈیو‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں عوام کی زندگی معمول پر آرہی ہے اور زیادہ تر علاقوں میں لوگ باآسانی آمد و رفت کر سکتے ہیں۔
بقول اُن کے، ’’لوگ اپنی دکانیں کھول رہے ہیں۔ اُن علاقوں میں صفائی ستھرائی اور دوبارہ مرمت کا کام شروع کر دیا گیا ہے جنہیں طالبان نے تباہ کر دیا تھا یا جلا دیا تھا ۔‘‘
افغان ایوان زیریں میں غزنی کے رکن چمن شاہ اعتمادی نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے ’ڈیوا ریڈیو‘ کو بتایا کہ باغیوں نے شہر چھوڑ دیا ہے اور وہ قریب کے اضلاع میں چلے گئے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہمیں تشویش ہے کہ جنگجو اب غزنی کے مرکز میں قریبی اضلاع خواجہ عمری، چغتو، رشیدان، زانا خان اور دیگر دو اضلاع میں چلے گئے ہیں۔ وہ گھر گھر جا کر لوگوں سے ہتھیار اکھٹے کر رہے ہیں اور حکومت کے لئے کام کرنے والوں کو پکڑ رہے ہیں‘‘۔
غزنی کے شہر میں جمعے کی شب مسلح طالبان نے حملہ کیا تھا۔ لیکن، پانچ دن گزرنے کے باوجود بھی وہ شہر کا کنٹرول حاصل نہیں کر سکے ہیں۔
معروف افغان صحافی، سمیع یوسف زئی نے ’وائس آف امریکہ‘، اُردو سروس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’افغان وزارت دفاع، این ڈی ایف اور وزارت خارجہ مسلسل کہتے رہے ہیں کہ طالبان سردیوں میں پاکستان میں رہتے ہیں اور گرمیوں میں افغانستان آ جاتے ہیں؛ اور تحریک طالبان پاکستان اور دیگر جنگجوؤں کو بھی اپنے ساتھ لے آتے ہیں۔ تاہم، افغانستان میں جاری لڑائی میں زیادہ تر جنگجو افغانستان کے اپنے تخریب کار ہیں‘‘۔
سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ’’خانہ جنگی کی بنیاد درحقیقت افغانستان میں ہے اور اس میں افغانستان کے ہی لوگ شامل ہیں۔ تاہم، یہ ممکن ہے کہ اُنہیں پاکستان کے جہادی اور مذہبی گروہوں سے کچھ مدد حاصل ہو رہی ہو‘‘۔
سمیع یوسف زئی کہتے ہیں کہ ’’پاکستان سے جنگجو خود اپنے طور پر افغانستان جا رہے ہیں اور اُنہیں منظم طریقے سے وہاں نہیں بھیجا رہا ہے‘‘۔