امریکہ میں گزشتہ دو برس سے حکمراں جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی کے پاس صدارت کا عہدہ ہونے کے ساتھ ساتھ کانگریس میں بھی اسے برتری حاصل ہے۔ لیکن ماہرین کے مطابق آٹھ نومبر کو ہونے والے وسط مدتی انتخاب میں صورتِ حال تبدیل ہوسکتی ہیں۔
امریکہ میں وسط مدتی انتخابات کو عام طور پر صدر کی کارکردگی پر ریفرنڈم سمجھا جاتا ہے اور تاریخی طور پر اس الیکشن میں حکمران جماعت کی نشستیں کم ہوتی ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے امریکہ کےمعاشی حالات کی وجہ سے بھی مڈ ٹرم انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کی پوزیشن بہتر ہو گی اور امریکہ میں وسط مدتی انتخابات کی تاریخ بھی یہی رہی ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ نے خواتین کو اسقاطِ حمل کا حاصل آئینی حق ختم کرنے کا جو فیصلہ دیا ہے اس کی وجہ سے یہ تاریخ بدل بھی سکتی ہے۔
ریاست ورجینیا کی جارج میسن یونیورسٹی کے پروفیسر مارک روزل کا کہنا ہے کہ تاریخی اعتبار سے صدر جس پارٹی کا ہو اس پارٹی کی وسط مدتی انتخابات میں کانگریس کے اندر نشستیں کم ہو جاتی ہیں۔
وائس آف امریکہ کے لیے ڈورا میکور کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ معمول کے وسط مدتی انتخابات ہوتے تو ہم توقع کرسکتے تھے کہ ری پبلکنز کو بڑی کامیابی ملے گی کیوں کہ حالات بھی ان کے لیے ساز گار ہیں اور صدر بائیڈن کی مقبولیت میں بھی کمی آئی ہے۔ لیکن اس بار کئی ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے روایت توقع کے برخلاف بھی آسکتے ہیں۔
کانگریس میں کیا تبدیلی آسکتی ہے؟
امریکہ میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں قانون سازی کرنے والے دونوں ایوانوں میں سے ایوانِ نمائندگان کے تمام 435 ارکان اور سینیٹ کی 100 نشستوں میں سے ایک تہائی پر انتخاب ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی کئی ریاستوں میں ریاستی اسمبلیوں اور تقریباً نصف ریاستوں کے گورنرز کے انتخابات بھی ہورہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ میں صدر قانون سازی کے ذریعے اپنی پالیسی ایجنڈے اور انتخابی وعدوں کے مطابق اقدامات کرتا ہے۔ ان قوانین کی منظوری کے لیے اگر صدر کی جماعت کو کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہو تو اس کے لیے ماحول ساز گار ہوتا ہے۔
انتخابات سے قبل صدر بائیڈن کی جماعت کو ایوانِ نمائندگان میں برتری حاصل تھی۔ اسی برتری کی وجہ سے صدر بائیڈن نے گن کنٹرول، امریکہ کے انفرااسٹرکچر کی تعمیروترقی، ماحولیاتی تبدیلی اور ادویہ کی قیمتوں سے متعلق قوانین منظور کرائے ہیں۔
وسط مدتی انتخابات کے نتائج سے اس بات کا تعین ہوگا کہ صدر بائیڈن اپنی باقی مدت میں بھی اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کا سلسلہ برقرار رکھ پائیں گے یا نہیں۔
ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹس کے 220 نمائندے ہیں جب کہ ری پبلکن پارٹی کے اراکین کی تعداد 212 ہے۔اسی طرح سینیٹ کی 100 نشستوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کے 48 ارکان ہیں اور انہیں دو آزاد ارکان کی حمایت بھی حاصل ہے۔
سینیٹ میں باقی کی نصف نشستیں ری پبلکن کے پاس ہیں۔ تاہم سینیٹ کی سربراہی امریکہ کے نائب صدر کے پاس ہوتی ہے جو ڈیموکریٹ کاملا ہیرس ہیں۔ وہ کسی معاملے پر ووٹنگ میں ٹائی ہونے کی صورت میں اپنے ووٹ کے ذریعے فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہیں۔
اب ایوانِ نمائندگان کی تمام اور سینیٹ کی ایک تہائی نشستوں پر ہونے والے انتخابات کی وجہ سے یہ صورتِ حال بھی تبدیل ہونے والی ہے۔
صورتِ حال میں تبدیلی کے اثرات سے متعلق بات کرتے ہوئے ٹیکساس یونیورسٹی میں کالج آف لبرل آرٹس کی ڈین میری برینن کا کہنا ہے کہ کانگریس میں اکثریت رکھنے والی جماعت کمیٹیوں میں تقرریاں کرتی ہے اور یہی کمیٹیاں فیصلہ کرتی ہیں کہ ایوان میں کون سے قوانین بحث کے لیے پیش ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر حزبِ اختلاف کی جماعت کو دونوں ایوانوں میں برتری حاصل ہوجائے تو وہ صدر کے ایجنڈے پر عمل درآمد میں رکاوٹ پیدا کرسکتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مڈٹرم کی تاریخ کیا بتاتی ہے؟
گزشتہ 100 برسوں کے دوران صرف تین وسط مدتی انتخابات میں حکمراں جماعت کی پارٹی کی نشستوں میں اضافہ ہوا ہے۔ سب سے پہلے 1934 میں شدید معاشی بحران کے دوران صدر فرینکلن روزویلٹ کے دور میں وسط مدتی اتنخابات کے نتیجے میں صدر کی پارٹی کی نشستوں میں اضافہ ہوا۔
اس کے بعد 1998 میں صدر کلنٹن کے مؤاخذے اور 2002 میں نائن الیون کے بعد ہونے والے مڈٹرم میں بھی صدر کی پارٹی کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ وہا۔
مارک روزیل کا کہنا ہے کہ ان تینوں مڈٹرم انتخابات میں غیر معمولی حالات کی وجہ سے یہ نتائج آئے۔ 1934 میں گریٹ ڈپریشن کی وجہ سے ایسا ہوا۔ اسی طرح 1998 میں ری پبلکن کی جانب سے شروع کیا گیا صدر کلنٹن کا مواخذہ عوامی سطح پر ایک غیر مقبول اقدام تھا اس لیے صدر کی پارٹی کو مڈ ٹرم میں اس کا فائدہ ہوا جب کہ نائن الیون کے بعد صدر بش کی مقبولیت عروج پر تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ تین مرتبہ یہ غیر معمولی حالات نتائج پر اثر انداز ہوئے۔ ان تین مثالوں کے علاوہ 100 برسوں کے دوران وسط مدتی انتخابات میں حکمران جماعت کی کانگریس میں نشستیں کم ہوئیں۔
مڈٹرم الیکشن میں ووٹر ٹرن آؤٹ صدارتی انتخاب کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتا ہے۔ 2018 کے مڈٹرم میں 50 فی صدر ٹرن آؤٹ رہا تھا جو گزشتہ چار دہائیوں میں سب سے زیادہ شرح تھی۔ اس سے قبل 2014 کے مڈ ٹرم میں 41 فی صد سے زائد جب کہ 2020 کے صدارتی انتخابات میں 66 فی صد سے زائد ٹرن آؤٹ رہا۔
برینن کے نزدیک مڈٹرم میں ووٹنگ کی کم شرح کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر حکمران جماعت کے ووٹر مطمئن ہوتے ہیں اور ووٹنگ میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ اس کے مقابلے میں جو لوگ ناخوش ہوتے ہیں وہ بڑی تعداد میں اپنی رائے اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ووٹرز کا رجحان
ری پبلکنز کا خیال ہے کہ ووٹر صدر بائیڈن کے صدارت کے دو برسوں میں مہنگائی کی بلند ترین شرح، امریکہ اور میکسیکو کی سرحد سے تارکینِ وطن کی بڑی تعداد میں آمد، افغانستان سے امریکہ کے انخلا میں ہونے والیے بد نظمی اور دیگر امور پر ڈیموکریٹک پارٹی کو سبق سکھائیں گے۔
اس کے مقابلے میں ڈیموکریٹس اپنی اب تک کی کامیابیوں سے متعلق پُراعتماد ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کے ایک بار پھر قومی سطح پر سیاست میں متحرک ہونے کی وجہ سے ڈیموکریٹ ووٹر بڑی تعداد میں اپنی پارٹی کی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے ووٹنگ میں حصہ لیں گے۔
ڈیموکریٹس کا خیال ہے کہ اسقاطِ حمل سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی وجہ سے بھی ان کی حمایت میں اضافہ ہوگا۔رواں برس جون میں امریکہ کی سپریم کورٹ نے اسقاطِ حمل کے حق سے متعلق 1973 کے میں دیے گئے اپنے ہی ایک فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے اسقاطِ حمل سے متعلق مشہور زمانہ 'رو بنام ویڈ' فیصلے میں اسقاطِ حمل کو قانونی عمل قرار دیا گیا تھا۔ تاہم اعلیٰ عدالت نے اس حق کو اب ختم کر دیا ہے جس کے بعد اب مختلف ریاستیں انفرادی سطح پر اسقاطِ حمل کے طریقۂ کار پر پابندی لگانے کے لیے قانون سازی کرسکتی ہیں۔ اس فیصلے کے بعد سے مڈ ٹرم انتخابات میں اسقاطِ حمل کے حق سے متعلق قانونی سازی اہم انتخابی موضوع بن چکا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی خواتین کو اسقاطِ حمل کی آزادی تک زیادہ سے زیادہ رسائی دینے کی حامی ہے۔ اس کے مقابلے میں ری پبلکنز اس معاملے پر قدامت پسندحلقوں کے موقف کی تائید کرتی ہے جو اسقاطِ حمل کو بطور آئینی حق تسلیم کرنے کے مخالف ہیں۔
SEE ALSO: مڈ ٹرم الیکشن: امریکہ میں ہر دو سال بعد انتخابی میدان کیوں سجتا ہے؟الیکشن سے قبل رائے عامہ کے جائزوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسقاطِ حمل سے متعلق مختلف طبقات میں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ غیر مقبول ہے جس میں وہ آزاد رائے دہندگان بھی شامل ہیں جن کے ووٹنگ کا رجحان کانٹے دار مقابلوں میں فیصلہ کُن ثابت ہوتا ہے۔
مارک روزیل کا کہنا ہے کہ اس مڈٹرم میں بہت کچھ ایسا ہوگا جو پہلے نہیں ہوا۔ کانگریس کے لیے کئی کانٹے دار مقابلوں میں اسقاطِ حمل سے متعلق آنے والے فیصلے پر ووٹرز کا ردعمل سے ڈیموکریٹس کے حق میں بازی پلٹ سکتی ہے۔
میری برینن کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ کئی ایسے فیکٹرز بھی مڈٹرم انتخابات پر اثرا انداز ہوتے ہیں جن کا ٹھیک ٹھیک اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔
ان کے مطابق بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ ان کے ووٹ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ان کے خیال میں صدارتی انتخاب کے مقابلے میں اس الیکشن کی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کئی مرتبہ موسم کی تبدیلی اور ذاتی مصروفیات سمیت معمول کے کئی کوئی چھوٹے موٹے مسائل بھی ووٹنگ کی شرح کو متاثر کرتے ہیں۔