مکہ، سعودی عرب کا مقدس شہرجہاں دنیا بھر کے مسلمان ہر سال مذہبی فریضہ حج ادا کرنے جاتے ہیں۔ ان حجاج کو بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کرنے کی غرض سے مکہ میں سارا سال تعمیر اور ٹاوٴن پلاننگ جاری رہتی ہے کیوں کہ حاجیوں کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جتنے زیادہ حاجی مکہ پہنچیں گے انہیں اتنی ہی زیادہ سہولیات بھی فراہم کرنا ہوں گی ۔
مکہ پہنچ کر حاجیوں کی سب سے پہلی ضرورت ہوٹل ہوتی ہے۔ چونکہ جج کرنے والوں کا تعلق ہر عمر سے ہوتا ہے لہذا وہ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ انہیں مکہ میں قیام کے دوران مسجد الحرام سے قریب ترین رہائش ملے تاکہ خواتین، بزرگوں ، بچوں اور بیماروں کو زیادہ مشقت نہ کرنی پڑے۔ اس ضرورت کے پیش نظر سعودی حکومت نے مسجد الحرام کے اردگرد تمام سہولیات سے آراستہ ہوٹلز کی تعمیر کامنصوبہ بنایا ہے ۔ اس غرض سے حرم کے اردگرد کا تمام ایریا خالی کرالیا گیا ہے اور اس جگہ بہت تیزی سے شاندار ہوٹلز اور رہائشی عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں۔
ان عمارتوں کو انتہائی جدید طرز پر تعمیر کیا جارہا ہے ۔خوب صورت ترین اور آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں جن میں دنیا کی ہر سہولت موجود ہوگی۔ عام لوگوں کے مشاہدے کے لئے اس علاقے کی کمپیوٹر پر تیار کردہ تصاویر (گرافکس )جاری کی گئی ہیں جنہیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ مکہ آنے والے سالوں میں انتہائی جدید شہربن جائے گا۔
ہر سال سعودی عرب آنے والے حاجیوں کی اوسطاً تعداد 25 لاکھ ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو ایسی رہائش فراہم کرنا جن سے انہیں گھر سے دوری اور کسی قسم کی بے آرامی کا احساس نہ ہو، آسان بات نہیں ہے۔ لہذا مسجد الحرام کے اطراف ان دنوں بڑی تعداد میں لگژری ہوٹلز تعمیر کئے جارہے ہیں ۔ انتہائی بلند عمارتوں کی تعمیر سے حرم کے اطراف کا نقشہ ہی بد ل جائے گا ۔ اس سال یا گزشتہ دو تین سال پہلے مکہ جانے والے زائرین یا حجاج، آئندہ چند سالوں بعد مکہ پہنچیں گے تو انہیں ایسا محسوس ہوگا گویا وہ مکہ نہیں کسی اور شہر آگئے ہیں ۔
حرم کے آس پاس کا نقشہ اس وقت بھی بدلہ بدلہ سا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی مسجد ، مسجد الحرام کے چاروں طرف دیو ہیکل کرینیں نصب ہیں جو دن رات بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ اس منصوبے پر ساڑے پانچ ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ ہوگی۔ یہاں انتہائی جدید سہولیات سے آراستہ 26 ہوٹلز تعمیر ہورہے ہیں ۔ یہ ہوٹلز 13 ہزار کمروں پر مشتمل ہوں گے۔
انہی ہوٹلز میں سے ایک زیر تعمیر مکہ ہلٹن اینڈ ٹاورز ہوٹل کے جنرل منیجر اور اس پروجیکٹ کے نائب صدر شجاع زیدی کا کہنا ہے کہ "مکہ جدید دور میں کروٹ بدل رہا ہے" ان کا کہنا ہے کہ یہ تمام ہوٹلز بھی بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ساتھ کم پڑسکتے ہیں کیوں کہ سعودی عرب میں پورے سال حج اور عمرے کے لئے آنے والے افراد کی تعداد 60 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔
ان عمارتوں کی تعمیری ضروریات اور مالی معاملات کی دیکھ بھال کرنے والے بینک سعودی فرانسی کے مطابق فی الوقت مکہ میں زیر تعمیر منصوبوں کی مجموعی مالیت بیس ارب ڈالر ہے ۔ بینک کے مطابق آئندہ دس سالوں میں مکہ اور مدینہ میں مزید تعمیری منصوبے شروع ہوں گے جن کا تخمینہ 120ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔
میریٹ انٹرنیشنل انکارپوریٹ اور حیات انٹرنیشنل دنیا کی مشہورترین ہوٹل چین ہیں ، یہ کمپنیاں مکہ اور مدینہ میں جاری تعمیری منصوبوں کا نظام سنبھالے ہوئے ہیں۔ مکہ کے بارے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ یہاں آنے والے حجاج اور زائرین کی تعداد میں اگلی دھائی تک پچاس فیصد اضافہ ہوجائے گا۔
حال ہی میں لندن کی بگ بین طرز کی گھڑی (کلاک ٹاور)مکہ میں ہی نصب کی گئی ہے جو دنیا کی سب سے بڑی گھڑی ہے ۔ اس کا رخ کعبہ کی جانب ہے ۔ ایک انتہائی بلند عمارت پر نصب یہ گھڑی مکہ کی پہچان بنتی جارہی ہے ۔ اسے کئی میل پہلے سے دیکھاجاسکتا ہے۔
ایک دور میں مکہ میں ایسے ہوٹلوں کی بھر مار تھی جہاں کھانا پکانے کی سہولت موجود نہیں تھی بلکہ عمارتیں بھی نہایت پرانی ، بوسیدہ اور ان کے کمرے بہت چھوٹے چھوٹے ہوا کرتے تھے لیکن اب لوگوں کی استعداد بڑھ گئی ہے لہذا وہ سہولتوں سے آراستہ بڑے بڑے ہوٹلز میں قیام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ 24گھنٹے خدمت میں مصروف برانڈ لگژری ہوٹلز کی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے۔ حجاج کو وضو خانے سے لیکر شاور تک ہر سہولت درکار ہوتی ہے لہذا برانڈلگژری ہوٹلز کا کاربار پھل پھول رہا ہے۔
اس وقت مسجد الحرام کے قریب خالی پلاٹ کی قیمت ایک لاکھ ڈالر فی مربع میٹر ہے ۔ مقابلتاً اس وقت دنیا بھر میں سب سے مہنگی اراضی مرکش (موناکو) میں ہے ۔ اس کا ریٹ ایک لاکھ اسی ہزار ڈالر فی مربع میٹر ہے۔ مکہ میں موجود جائیداد کی خرید و فروخت کے ماہرین کاکہنا ہے کہ زمین کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ یہ قیمتیں اس وقت تک بڑھتی رہیں گی جب تک تمام تعمیری منصوبے پورے نہیں ہوجاتے۔ یہاں زمین کی خریداری کے لئے صرف سعودی فرمیں ہی قطار میں موجود نہیں بلکہ دبئی، قطر، کویت اور مصرکی انتہائی مشہور فرمیں بھی ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی دوڑ میں شامل ہیں جس کے سبب زمین کی قیمتیں آسمان سے جاملی ہیں۔