صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے میں تعطل پیدا ہو گیا ہے۔ یہ اس وقت مزید طول پکڑ گیا جب سینیٹ میں اکثریتی پارٹی کے قائد، مچ مکونیل نے کہا کہ ڈیموکریٹس کے ساتھ مزید کوئی بات چیت نہیں ہو گی، جب کہ ایوان نمائندگان کی اسپیکر، نینسی پیلوسی نے اضافی تفصیل اور گواہان پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سینیٹ میں مکونیل کو اکثریت حاصل ہے جس سے ری پبلیکن پارٹی یہ فائدہ اٹھا سکتی ہے کہ صدر کے خلاف کارروائی میں الزامات میں ان کی فوری بریت کی کوشش کرے، لیکن پیلوسی کی جانب سے مواخذے میں عائد الزامات پیش کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام لینا کارروائی کے تعطل کا باعث بنی ہے۔
کارروائی کے آغاز پر تاخیر کا شبہ تھا۔ لیکن، طریقہ کار اور ضابطوں کی نوعیت کا یہ عمل دونوں آزمودہ قانون سازوں کے درمیان پنجہ آزمائی تک پہنچ گیا، جب کہ مواخذے کا مقدمہ کبھی کبھار پیش آنے والا معاملہ ہے، جو قومی تاریخ کا تیسرا مقدمہ ہے۔
مکونیل کا تعلق ریاست کنٹکی اور ری پبلیکن پارٹی سے ہے۔ انھوں نے بدھ کے روز کہا کہ ’’سینیٹ میں ضابطے کی کارروائی کے معاملے پر اب ایوان نمائندگان کے ساتھ کوئی بات نہیں ہو گی۔ مواخذے کی خاطر ہم اپنے اختیارات سے سبکدوش نہیں ہوں گے۔ ڈیموکریٹس کی باری ختم ہو چکی ہے‘‘۔
ٹرمپ نے جمعرات کو ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ’’پیلوسی مواخذے کے اہداف ہمارے حوالے نہیں کرنا چاہتیں، جنھیں ابتدائی طور پر مؤقف تبدیل کرنے کی شہرت رکھنے والے ’شفٹی‘ شف جیسے بدعنوان سیاست دانوں نے دھوکے بازی سے وضع کیا، چونکہ تفتیش اور اذیت رسانی کے ان برسوں کے دوران، وہ جرائم بیان نہیں کرتے، بلکہ مذاق اور دھوکہ دہی میں یقین رکھتے ہیں‘‘۔
کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ پارٹی کے رکن، ایڈم شف نے ایوان نمائندگان میں مواخذے کی انکوائری کی سربراہی کی تھی۔
تین ہفتے قبل ایوان نمائندگان نے ٹرمپ کا مواخذہ کیا، ان الزامات پر کہ انھوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، جب انھوں نے مبینہ طور پر یوکرین کے صدر پر دباؤ ڈالا کہ وہ ڈیموکریٹس کے خلاف تفتیش کریں، تب تک انھوں نے امریکی اتحادی کو دی جانے والی 400 ملین ڈالر مالیت کی فوجی اعانت روک دی تھی، جس کا مقصد یوکرین کی مدد کرنا تھا تاکہ وہ روس کے ساتھ اپنی سرحد کا تحفظ کر سکیں۔
ٹرمپ نے کہا ہے کہ انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ لیکن، ایوان نمائندگان کے ڈیموکریٹس کی مخالفت کے نتیجے میں، صدر کے خلاف کانگریس کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کا اضافی الزام لگا دیا گیا۔
اب یہ مقدمہ سینیٹ میں چلایا جائے گا جہاں ری پبلیکن پارٹی کو معمولی اکثریت حاصل ہے۔