پاکستان میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27 اکتوبر کو حکومت کے خلاف آزادی مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’حکومت کو گھر بھیج کر ہی دم لیں گے‘‘۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’’تمام اپوزیشن جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ حکومت جعلی مینڈیٹ سے وجود میں آئی ہے۔ ناجائز حکومت کی نااہلیوں کی وجہ سے ملکی معیشت ڈوب چکی ہے۔ مذہبی حوالے سے پاکستانی مسلمان کرب کا شکار ہیں۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو بقا کا سوال پیدا ہوگیا ہے‘‘۔
انہوں نے واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’’کسی بھی معاملے پر حکومت سے مفاہمت نہیں ہوگی۔ حکومت کو جانا ہوگا۔ اگر رکاوٹ ڈالی گئی تو پہلی، دوسری اور تیسری سکیم سمیت تمام فیصلے کیے ہوئے ہیں۔ ہمارا آزادی مارچ کی تاریخ میں تبدیلی کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ کوئی کہہ رہا ہے۔ میری گرفتاری ہوئی تو اس پر بھی حکمت عملی طے کر چکے ہیں‘‘۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ’’فوج کا احترام کرتے ہیں، اداروں سے تصادم نہیں چاہتے۔ آزادی مارچ میں کسی تصادم کا ارادہ نہیں ہے‘‘۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کے میڈیا سے گفتگو کیے بغیر جانے پر ان کا کہنا تھا کہ ’’بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس میں موجودگی ضروری نہیں۔ ان کے ساتھ مثبت گفتگو ہوئی۔ سیاسی جماعتوں میں جلد انتخابات کے مطالبے پر اتفاق ہوا ہے۔ حکومت کو ہر حال میں جانا ہوگا‘‘۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’’جے یو آئی نے پورے ملک میں 15 ملین مارچ کیے ہیں۔ فیصلہ کیا ہے کہ پورے ملک سے قافلے 27 اکتوبر کو اسلام آباد آکر دم لیں گے، 27 اکتوبر کو ہم کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں گے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے بھی رابطے میں رہیں گے۔حکومت کو گھر بھیج کر ہی دم لیں گے‘‘۔
دوسری جانب، پاکستان مسلم لیگ(ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نےشہباز شریف کی آزادی مارچ کی قیادت سے انکار سے متلعق میڈیا رپورٹس کی سختی سے تردید کر دی ہے۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’’جیل میں نواز شریف اور شہباز شریف کی ملاقات کے حوالے سے ذرائع کی خبر محض جھوٹ ہے۔ شہباز شریف کی آزادی مارچ میں عدم شرکت کی شرانگیزی قابل افسوس اور قابل مذمت ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’میڈیا سے گزارش ہے کہ پارٹی قیادت سے متعلق کوئی بھی اطلاع بغیر تصدیق نہ چلائی جائے۔ شہباز شریف نے پارٹی قائد محمد نواز شریف کو پارٹی کی مشاورت سے آگاہ کیا۔ اس ملاقات میں پارٹی کی سی ای سی، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کی قیادت سے ملاقاتوں کی تفصیل سے بھی آگاہ کیا۔ تاہم، مریم اورنگزیب نے آزادی مارچ میں شرکت کرنے اور قیادت کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔
اس حوالے سے حکومتی موقف بھی سامنے آیا ہے جس میں وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ’’مدارس کے معصوم بچوں کو سیاسی مفاد کے لیے انسانی شیلڈ بنانا کوئی جمہوریت نہیں‘‘۔
انہوں نے مولانا فضل الرحمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’مولانا صاحب قومی خزانے کو بے رحمی سے لوٹنے والوں کو بچانے کیلئے اسلام اور قانون کی مخالف سمت نہ کھڑے ہوں۔ عمران خان کے خلاف سڑک پر نکلنے کا مطلب کرپشن کو لائسنس دینے کے مترادف ہے‘‘۔
بقول ان کے، ’’مولانا، سیاست مدارس کے معصوم بچوں کے سر پر نہ کریں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’دونوں جماعتیں مولانا کے ساتھ کھڑے ہونے کا خطرہ بھی مول نہیں لینا چاہتیں۔ آپس میں جو سچ نہیں بول سکتے وہ عوام کے ساتھ کیا سچ بولیں گے؟‘‘
مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس سے پہلے ان کی پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ملاقات بھی ہوئی۔ ملاقات کے بعد بلاول بھٹو زرداری میڈیا سے بات کیے بغیر روانہ ہوگئے تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی مولانا فضل الرحمان کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان، مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ’’دونوں راہنماؤں کا اس نکتے پر اتفاق ہوا ہے کہ اپوزیشن کے پاس احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں، جمہوری پارٹیوں کے پاس اب سڑکوں پر آنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہا۔ حکومت کی ہر محاذ پر ناکامی کے بعد اپوزیشن ملکی مفاد میں ہر صورت اقدامات کرے گی‘‘۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اگلے ہفتے کور کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے اور کور کمیٹی مولانا فضل الرحمان کے مارچ میں شرکت کے حوالے سے اہم فیصلے کرے گی۔