امریکی ریاست مشی گن کے شہر فلنٹ میں فیملی ڈالرز نامی ایک اسٹور کے باہر ایک گارڈ کو صرف اس لیے گولی مار دی گئی کہ اس نے ایک خاتون کو اندر جانے سے روکتے ہوئے کہا کہ اس کے ساتھ بچے کو بھی فیس ماسک پہننا ہو گا۔ چھ بچوں کا باپ ایک بچے کی حفاظت کی بات کرتے ہوئے جان سے گیا۔
امریکہ میں نصیحت کرنا یا نصیحت سننا کوئی پسند نہیں کرتا۔ اسی لیے جب امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر آسٹن میں ایک پارک کے نگران نے چند لوگوں کو سماجی فاصلے کی پابندی نہ کرنے پر ٹوکا تو ان میں سے ایک نے اسے دھکا دے کر کئی فٹ گہرے پانی میں گرا دیا۔
اگرچہ دونوں واقعات میں پولیس حرکت میں آئی اور قانون کے مطابق کارروائی بھی ہو رہی ہے مگر ایک انسان کا دوسرے کے خلاف فوری ردِّ عمل تشویشناک ضرور ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
قوانین موجود ہیں اور لوگ معمول کے مطابق ان کی پابندی کرتے ہیں مگر کرونا وائرس کی اس وبا نے بہت سے معمولات تبدیل کر دئے ہیں اور جیسے جیسے امریکی ریاستوں میں کاروبار دوبارہ کھلنے لگے ہیں، اس وبا سے محفوظ رہنے کیلئے کچھ پابندیاں معمول کی زندگی کا حصّہ بنتی جاری ہیں۔
اب سفر ہو یا خریداری، آپ گھر سے باہر نکلیں تو آپ کے لئے ماسک پہننا ضروری ہے اور بہت سی ائیرلائنز نے بھی اپنے عملے اور مسافروں کیلئے ماسک پہننا لازمی کر دیا ہے۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ ضوابط کی پابندی سے کتراتا ہے خواہ یہ پابندی اس کی اپنی زندگی کیلئے ہی ضروری کیوں نہ ہو۔ کرونا وائرس کی وبا پھیلی تو فوری طور پر جن احتیاطی تدابیر کو ضروری قرار دیا گیا ان میں بار بار ہاتھ دھونا، سماجی فاصلہ رکھنا اور گھر سے باہر ماسک پہننا شامل ہیں۔
مگر وہ پابندی ہی کیا جس کی خلاف ورزی نہ ہو۔ چند ہی ہفتے کی گھروں میں بند زندگی سے تنگ آئے لوگ بعض امریکی ریاستوں میں سڑکوں پر احتجاج کیلئے نکل آئے اور انہوں نے نہ تو ماسک پہنے تھے اور نہ ہی ایک دوسرے سے کوئی ضروری فاصلہ رکھا تھا۔ کہا گیا اس احتجاج کا محرک سیاسی ہے اور چونکہ امریکی صدر خود ماسک نہیں پہنتے اس لئے ان کے حامی بھی اس کی پرواہ نہیں کر رہے۔
سیاست ہماری زندگیوں میں اتنی اہم ہوگئی کہ وبا کا خوف بھی چٹکیوں میں اڑا دیا گیا۔ ڈاکٹر خالدہ زکی مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی میں سوشیالوجی کی پروفیسر امریٹس ہیں۔ وہ کہتی ہیں لوگ ملکی لیڈر کی پیروی کرتے ہیں۔ جب صدر خود ماسک نہ پہنیں تو لوگوں سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے۔
لوگوں کو کسی بھی نئی چیز کو اپنانے پر آمادہ کرنے کیلئے اس کی ضرورت اور اہمیت واضح کرنے کے ساتھ اس کے استعمال کی تربیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر خالدہ ذکی کہتی ہیں لوگوں کو ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ رکھنے کی کوئی باقاعدہ تربیت نہیں دی گئی۔ محض میڈیا پر دکھانے اور دوکانوں پر لکھ کے لگا دینے سے مقصد پو را نہیں ہوتا۔
وہ کہتی ہیں یہی وجہ ہے کہ لوگ ماسک پہنتے ہیں تو اسے بار بار چھوتے ہیں، ناک سے نیچے کھسکا دیتے ہیں اور یوں اس سے فائدے کے بجائے نقصان کا خطرہ ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ماسک پہننے اور ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کو انا کا مسَلہ نہیں بنانا چاہئے۔ ہم سب ساتھ رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی حفاظت اور دوسروں کے لئے تھوڑی پرواہ ہی ہمیں مہذب بناتی ہے۔
یہ مشکل وقت ہے۔ زندگی معمول کے مطابق گزارنا فی الحال ممکن نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن ختم بھی ہو جائے تو بھی وبا ابھی ختم نہیں ہوئی اور کوئی مانے یا نہ مانے، یہ ماسک، اور فاصلہ، زندگی کا نیو نارمل یا نیا معمول ہے اس لئے اپنے، اپنے بچوں اور اپنے جیسے دیگر لوگوں کیلئے اس نیو نارمل کی پابندی کرلی جائے تو بہت سوں کا بھلا ہوگا۔