اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اعلٰی عدلیہ کے ججز کے خلاف دائر ریفرنس فوری طور پر واپس لے، دونوں جماعتوں نے عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کے لیے جدوجہد جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی دعوت پر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے وفد کے ہمراہ جاتی امرا میں مسلم لیگ ن کی اعلٰی قیادت سے ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر اتفاق کیا گیا۔
دونوں جماعتوں نے حکومت کی ناقص کارکردگی اور ملک کو درپیش معاشی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ حکومت ملک کو اقتصادی دلدل میں دھکیل رہی ہے۔
نیب کے کردار پر اظہار تشویش
ملاقات کے بعد جاری اعلامیے میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپوزیشن قیادت کے خلاف کارروائیوں کو بھی انتقامی قرار دیا گیا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے نیب جانب دارانہ کارروائیاں کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ ملی بھگت کے ذریعے اپوزیشن قیادت کو ہراساں کر رہی ہے۔
خیال رہے کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو کے والد کرپشن الزامات کے تحت جیل میں قید ہیں۔ نواز شریف العزیزیہ اسٹیل مل کیس جبکہ بلاول بھٹو کے والد سابق صدر آصف علی زرداری کو حال ہی میں نیب نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار کیا تھا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں نیب کے جھوٹے مقدمات اور عدالتوں کے کردار پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔
دونوں وفود نے رمضان میں طے پانے والی آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد پر بھی مشاورت کی جس کی ذمہ داری مولانا فضل الرحمٰن کو سونپی گئی ہے۔
اپوزیشن قیادت سے رابطے بڑھانے پر اتفاق
ملاقات کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ایک مشترکہ لائحہ عمل کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے مشاورت کے بعد انھیں بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔
مشترکہ حکمت عملی کا دائرہ کار ان سیاسی جماعتوں تک بھی پھیلایا جائے گا جن جماعتوں نے پی ٹی آئی کو پارلیمینٹ میں ووٹ دیا تھا۔ یہ جماعتیں بھی اب حکومت کی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔
'اسپیکر پروڈکشن آرڈر جاری کریں'
مشترکہ اعلامیے میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سابق صدر آصف علی زرداری سمیت دیگر گرفتار اراکین اسمبلی کے فوری طور پر پروڈکشن آرڈر جاری کریں۔
اعلامیے میں اسپیکر کو جانب دارانہ کردار ترک کرنے اور پارلیمانی و جمہوری روایات کا پاس رکھنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
دونوں جانب سے کون کون شریک ہوا؟
چیئرمین پیپلزپارٹی کے ہمراہ وفد میں قمر زمان کائرہ، چوہدری منظور، حسن مرتضٰی اور مصطفیٰ نواز کھوکھر شامل ہیں۔
مسلم لیگ ن کی جانب سے مریم نواز، مریم اورنگزیب، محمد زبیر، سردار ایاز صادق، کیپٹن (ر) صفدر، پرویز رشید اور رانا ثنا اللہ ملاقات میں شریک ہوئے۔
مریم نواز نے لاہور کے دورے پر آئے ہوئے بلاول بھٹو کو ہفتے کے روز فون کیا تھا اور انھیں اتوار کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی امرا میں کھانے کی دعوت دی جسے بلاول بھٹو نے قبول کر لیا تھا۔
بلاول بھٹو نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ نظریاتی اختلافات ہیں۔ لیکن حکومت کی غلط پالسیوں اور عوام دشمن بجٹ کو روکنے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔
ملک کی دو بڑی جماعتوں کی قیادت کے درمیان یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت بدعنوانی کے الزامات پر گرفتار ہے۔
رواں ہفتے ہی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ان کی ہمشیرہ فریال تالپور اور مسلم لیگ ن کے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کو نیب نے گرفتار کیا ہے، جبکہ مریم نواز کے والد اور جماعت کے قائد نواز شریف پہلے سے جیل میں ہیں۔
مریم نواز نے گزشتہ روز فریال تالپور کی گرفتاری کی مذمت کی تھی اور اس سے قبل بلاول بھٹو نواز شریف سے ملاقات کے لیے کوٹ لکھ پت جیل لاہور گئے تھے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان یہ ملاقات گزشتہ ماہ حزب اختلاف کے رہنماؤں کی افطار بیٹھک کا تسلسل ہے، جس میں بلاول بھٹو نے مریم نواز کو مدعو کیا تھا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، مریم نواز اور بلاول بھٹو کے درمیان یہ ملاقات ملک کے سیاسی صورت حال پر کوئی زیادہ اثرات مرتب نہیں کر پائے گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرت ہوئے تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کوئی بڑا محاذ کھڑا کر سکتی ہے، جبکہ ان کے درمیان ایجنڈے پر اتفاق ہے نہ ہی حکمت عملی پر۔
خیال رہے کہ آئندہ ہفتے حزب اختلاف کی جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس ہونے والی ہے، جس میں حکومت مخالف تحریک کے لائحہ عمل پر اتفاق کیا جائے گا۔