سابق امریکی سفارت کار کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوجائے تو یہ ملک خطے کا سب سے زیادہ خوشحال، تیز تر ترقی کرتا ہوا ایک مستحکم ملک بن سکتا ہے
واشنگٹن —
پاکستان اور افغانستان کے لیے سابق امریکی خصوصی نمائندے مارک گراسمین نے کہا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوئی پیشگی شرط عائد کرنے کی بجائے، اختتامی شرائط کو اپنے پیش نظر رکھا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے بعد انہیں قانون کی حکمرانی، آئین کی پاسداری اور خواتین کے حقوق کے تحفظ سمیت دوسری چیزوں کا احترام کرنا ہوگا۔ اور طالبان کو بھی یہ علم ہے کہ مذاکرات کے اختتام پر حکومت ان سے کس چیز کی توقع رکھتی ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ امریکہ نے بھی جب افغانستان کے مستقبل کے سلسلے میں افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھولا تھا، تو ہم نے بھی مذاکرات میں کوئی پیشگی شرط عائد نہیں کی تھی، بلکہ ہماری شرائط اختتامی نوعیت کی تھیں کہ آخرکار انہیں تشدد کا راستہ ترک کرنا ہوگا اور خود کو القاعدہ سے الگ کرنا ہوگا۔
سابق امریکی سفارت کار نے کہا کہ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ پاکستانی طالبان نے صرف اس وقت مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی جب حکومت نے یہ کہا کہ وہ ان کے خلاف ایکشن لے گی اور پاکستان نے ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بھی بنایا۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ طالبان ایک ایسے وقت مذاکرات کے لیے تیار ہوئے جب پاکستان کی حکومت نے اپنے عوام، اپنی سرحدوں اور اپنے مفادات کے تحفظ کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے مذاکرات کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات ڈپلومیسی کی ہی ایک شکل ہے اور بعض اوقات اس کی ضرورت پڑتی ہے۔
سال 2011 ءاور 2012 ءمیں پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی امریکی نمائندے کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے مارک گراسمین نے ان خیالات کا اظہار ’وائس آف امریکہ‘ کے ٹیلی ویژن شو میں اردو سروس کے سربراہ فیض رحمٰن کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک غیرملکی کے طور پر میں یہ محسوس کر سکتا ہوں کہ پاکستانی عوام یہ سوچتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات سے تشدد اور دہشت گردی اور بم دھماکوں جیسے واقعات اور خوف و ہراس کی فضا میں کمی آئے گی۔
سابق امریکی سفارت کار کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوجائے تو یہ ملک خطے کا سب سے زیادہ خوشحال، تیز تر ترقی کرتا ہوا ایک مستحکم ملک بن سکتا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے متعلق عمومی سوچ میں تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گذشتہ کچھ عرصے میں، بالخصوص 2012 ءکے بعد سے، پاکستانی عوام اور قیادت میں یہ تبدیلی آتی ہوئی محسوس کی ہے کہ وہ اب طالبان کو پاکستان کے لیے ایک حقیقی خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
مارک گراسمین نے پاکستانیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی قوم تہذیب یافتہ، ذہانت، مہارتوں اور اعلیٰ صلاحیتوں سے مالامال ہے اور اس کے نوجوانوں نے تعلیم، کاروبار اور دیگر شعبوں میں اپنا ایک مقام بنایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے انہیں اپنی صلاحیتوں اور مہارتوں میں اضافہ کے نئے مواقع دینے کے لیے اُن پر اپنے کئی شعبوں کے دروازے کھول دیے ہیں؛ اور ترقی کے سفر میں آگے بڑھنے میں ان کی مدد کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کا امدادی پروگرام خاص طورپر توانائی کی پیدوار بڑھانے میں پاکستان کی مدد دے رہا ہے۔ ’یو ایس ایڈ‘ کے تحت، چھوٹے کاروباروں اور خواتین کی ترقی کے شعبوں پر توجہ دی جا رہی ہے۔ امریکہ اپنے تعلیمی پروگرام فل برائٹ میں پاکستانی نوجوانوں کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ حصہ دے رہا ہے۔ اور ہمارے لیے یہ خوشی کی بات ہے کہ پاکستان میں متوسط طبقے کا دائرہ پھیل رہا ہے۔
پاک امریکہ تعلقات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں سابق امریکی سفارت نے کہا کہ 2011 پاک امریکہ تعلقات کا بدترین سال تھا۔ اس سال ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ پیش آیا۔ اور اسی سال کے آخر میں ایک غلطی کے نتیجے میں سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ ہوا، جس میں 26 پاکستانی فوجی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 2011 کا سال پاک امریکہ تعلقات کے لیے سب سے زیادہ چیلنجنگ سال تھا۔ لیکن، اس دوران ہم نے بات چیت اور مذاکرات جاری رکھے اور پھر جان کیری کے وزیر خارجہ بننے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوگئی جس میں اب مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
افغانستان:
سابق امریکی سفارت کار مارک گراسمین نے افغانستان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ افغانستان میں امریکی قیادت میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف جنگ سے وہاں ترقی کا دورازہ کھلا ہے۔ اب وہاں بچے اسکول جا رہے ہیں۔ ملکی معیشت 9 فی صد سالانہ کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے۔ 2003 میں افغانستان میں صرف 12 ہزار موبائل فونز تھے جن کی تعداد بڑھ کر اب ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اسی طرح، خواتین کی تعلیم، روزگار اور حقوق کے سلسلے میں بھی کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ لیکن، اب بھی وہاں بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے۔
پانچ اپریل کو افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بارے میں مارک گراسمین نے کہا کہ اگرچہ ان کے متعلق بہت سی بے چینی اور تشویش پائی جاتی ہے، لیکن اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ افغانستان میں کامیاب انتخابات کے انعقاد کی صورت میں، جس کا مجھے یقین ہے، اس ملک کے نئے راہنما کی حیثیت زیادہ تر افغانیوں کی نظر قانونی ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوگا کہ وہاں جمہوری انداز میں اقتدار ایک سویلین صدر سے دوسرے سویلین صدر کو منتقل ہوگا۔
اُن کے بقول، انتخابات کے کامیاب اور محفوظ انعقاد کے لیے وہاں کے آزاد الیکشن کمشن نے اپنے وسائل میں اضافہ کیا ہے۔ اس کی مدد کے لیے ملک بھر میں 22 ہزار پولیس اسٹیشن موجود ہیں اور سیکیورٹی فورسز کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو روکنے کے لیے الیکشن کمشن کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں۔ ووٹروں کے اندراج کا کام پچھلے سال ستمبر سے جاری ہے اور لاکھوں نئے ووٹروں کا اندراج کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ، یورپ اور دنیا بھر میں سب کو افغانستان میں آزادانہ انتخابات کے سلسلے میں ان کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔
سابق امریکی سفارت کار نے رائے عامہ کے ایک تازہ ترین جائزے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے 77 فی صد عوام صدارتی الیکشن کے متعلق مثبت رائے رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے ان کی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلی آئے گی۔ 57 فی صد کا خیال ہے کہ ملک بہتری کی جانب بڑھ رہا ہے۔
گراسمین نے کہا کہ افغانستان اور ا مریکہ کے درمیان سیکیورٹی کا معاہدہ BSA ہم سب کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس سلسلے میں ہونے والے مذاکرات میں مجھے شرکت کاموقع مل چکا ہے۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس معاہدے کی ضرورت ہے کیونکہ کوئی بھی امریکی صدر یہ نہیں چاہے گا کہ ان کی فورسز کو اسٹیٹس سے متعلق کسی معاہدے کے بغیر کسی علاقے میں رکھا جائے۔ اگرچہ صدر کرزئی سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، لیکن صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدوار کہہ چکے ہیں کہ اپنی کامیابی کی صورت میں وہ معاہدے پر دستخط کردیں گے۔ اب امریکی انتظامیہ بھی یہی سوچ رہی ہے کہ اگر مسٹر کرزئی دستخط نہیں کرتے تو ہم نئے افغان صدر سے معاہدے پر دستخط حاصل کرلیں گے۔
افغانستان سے امریکی اور اتحادی فورسز کے انخلا کے بعد طالبان کے خطرے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں سابق امریکی سفارت کا رکا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں افغان عوام ایسے کسی بھی خطرے کا پوری قوت سے مقابلہ کریں گے اور وہ طالبان دور کے بعد حاصل ہونے والی کامیابیوں سے کسی صورت محروم ہونا پسند نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان، امریکہ اور دوسرے ملکوں کو بھی چاہیئے کہ وہ افغان عوام کی مدد کریں۔
انہوں نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ بین الاقوامی کمیونٹی شکاگو میں ہونے والے نیٹو اجلاس کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے افغانستان میں اپنی مناسب موجودگی برقرار رکھے گی، تاکہ ان کامیابیوں کو جن کے حصول کے لیے افغان عوام کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی فورسز نے بھی اپنی جانیں قربان کی ہیں، قائم رکھا جا سکے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ امریکہ نے بھی جب افغانستان کے مستقبل کے سلسلے میں افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھولا تھا، تو ہم نے بھی مذاکرات میں کوئی پیشگی شرط عائد نہیں کی تھی، بلکہ ہماری شرائط اختتامی نوعیت کی تھیں کہ آخرکار انہیں تشدد کا راستہ ترک کرنا ہوگا اور خود کو القاعدہ سے الگ کرنا ہوگا۔
سابق امریکی سفارت کار نے کہا کہ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ پاکستانی طالبان نے صرف اس وقت مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی جب حکومت نے یہ کہا کہ وہ ان کے خلاف ایکشن لے گی اور پاکستان نے ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بھی بنایا۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ طالبان ایک ایسے وقت مذاکرات کے لیے تیار ہوئے جب پاکستان کی حکومت نے اپنے عوام، اپنی سرحدوں اور اپنے مفادات کے تحفظ کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے مذاکرات کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات ڈپلومیسی کی ہی ایک شکل ہے اور بعض اوقات اس کی ضرورت پڑتی ہے۔
سال 2011 ءاور 2012 ءمیں پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی امریکی نمائندے کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے مارک گراسمین نے ان خیالات کا اظہار ’وائس آف امریکہ‘ کے ٹیلی ویژن شو میں اردو سروس کے سربراہ فیض رحمٰن کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک غیرملکی کے طور پر میں یہ محسوس کر سکتا ہوں کہ پاکستانی عوام یہ سوچتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات سے تشدد اور دہشت گردی اور بم دھماکوں جیسے واقعات اور خوف و ہراس کی فضا میں کمی آئے گی۔
سابق امریکی سفارت کار کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوجائے تو یہ ملک خطے کا سب سے زیادہ خوشحال، تیز تر ترقی کرتا ہوا ایک مستحکم ملک بن سکتا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے متعلق عمومی سوچ میں تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گذشتہ کچھ عرصے میں، بالخصوص 2012 ءکے بعد سے، پاکستانی عوام اور قیادت میں یہ تبدیلی آتی ہوئی محسوس کی ہے کہ وہ اب طالبان کو پاکستان کے لیے ایک حقیقی خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
مارک گراسمین نے پاکستانیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی قوم تہذیب یافتہ، ذہانت، مہارتوں اور اعلیٰ صلاحیتوں سے مالامال ہے اور اس کے نوجوانوں نے تعلیم، کاروبار اور دیگر شعبوں میں اپنا ایک مقام بنایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے انہیں اپنی صلاحیتوں اور مہارتوں میں اضافہ کے نئے مواقع دینے کے لیے اُن پر اپنے کئی شعبوں کے دروازے کھول دیے ہیں؛ اور ترقی کے سفر میں آگے بڑھنے میں ان کی مدد کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کا امدادی پروگرام خاص طورپر توانائی کی پیدوار بڑھانے میں پاکستان کی مدد دے رہا ہے۔ ’یو ایس ایڈ‘ کے تحت، چھوٹے کاروباروں اور خواتین کی ترقی کے شعبوں پر توجہ دی جا رہی ہے۔ امریکہ اپنے تعلیمی پروگرام فل برائٹ میں پاکستانی نوجوانوں کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ حصہ دے رہا ہے۔ اور ہمارے لیے یہ خوشی کی بات ہے کہ پاکستان میں متوسط طبقے کا دائرہ پھیل رہا ہے۔
پاک امریکہ تعلقات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں سابق امریکی سفارت نے کہا کہ 2011 پاک امریکہ تعلقات کا بدترین سال تھا۔ اس سال ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ پیش آیا۔ اور اسی سال کے آخر میں ایک غلطی کے نتیجے میں سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ ہوا، جس میں 26 پاکستانی فوجی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 2011 کا سال پاک امریکہ تعلقات کے لیے سب سے زیادہ چیلنجنگ سال تھا۔ لیکن، اس دوران ہم نے بات چیت اور مذاکرات جاری رکھے اور پھر جان کیری کے وزیر خارجہ بننے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوگئی جس میں اب مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
افغانستان:
سابق امریکی سفارت کار مارک گراسمین نے افغانستان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ افغانستان میں امریکی قیادت میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف جنگ سے وہاں ترقی کا دورازہ کھلا ہے۔ اب وہاں بچے اسکول جا رہے ہیں۔ ملکی معیشت 9 فی صد سالانہ کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے۔ 2003 میں افغانستان میں صرف 12 ہزار موبائل فونز تھے جن کی تعداد بڑھ کر اب ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اسی طرح، خواتین کی تعلیم، روزگار اور حقوق کے سلسلے میں بھی کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ لیکن، اب بھی وہاں بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے۔
پانچ اپریل کو افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بارے میں مارک گراسمین نے کہا کہ اگرچہ ان کے متعلق بہت سی بے چینی اور تشویش پائی جاتی ہے، لیکن اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ افغانستان میں کامیاب انتخابات کے انعقاد کی صورت میں، جس کا مجھے یقین ہے، اس ملک کے نئے راہنما کی حیثیت زیادہ تر افغانیوں کی نظر قانونی ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوگا کہ وہاں جمہوری انداز میں اقتدار ایک سویلین صدر سے دوسرے سویلین صدر کو منتقل ہوگا۔
اُن کے بقول، انتخابات کے کامیاب اور محفوظ انعقاد کے لیے وہاں کے آزاد الیکشن کمشن نے اپنے وسائل میں اضافہ کیا ہے۔ اس کی مدد کے لیے ملک بھر میں 22 ہزار پولیس اسٹیشن موجود ہیں اور سیکیورٹی فورسز کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو روکنے کے لیے الیکشن کمشن کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں۔ ووٹروں کے اندراج کا کام پچھلے سال ستمبر سے جاری ہے اور لاکھوں نئے ووٹروں کا اندراج کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ، یورپ اور دنیا بھر میں سب کو افغانستان میں آزادانہ انتخابات کے سلسلے میں ان کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔
سابق امریکی سفارت کار نے رائے عامہ کے ایک تازہ ترین جائزے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے 77 فی صد عوام صدارتی الیکشن کے متعلق مثبت رائے رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے ان کی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلی آئے گی۔ 57 فی صد کا خیال ہے کہ ملک بہتری کی جانب بڑھ رہا ہے۔
گراسمین نے کہا کہ افغانستان اور ا مریکہ کے درمیان سیکیورٹی کا معاہدہ BSA ہم سب کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس سلسلے میں ہونے والے مذاکرات میں مجھے شرکت کاموقع مل چکا ہے۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس معاہدے کی ضرورت ہے کیونکہ کوئی بھی امریکی صدر یہ نہیں چاہے گا کہ ان کی فورسز کو اسٹیٹس سے متعلق کسی معاہدے کے بغیر کسی علاقے میں رکھا جائے۔ اگرچہ صدر کرزئی سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، لیکن صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدوار کہہ چکے ہیں کہ اپنی کامیابی کی صورت میں وہ معاہدے پر دستخط کردیں گے۔ اب امریکی انتظامیہ بھی یہی سوچ رہی ہے کہ اگر مسٹر کرزئی دستخط نہیں کرتے تو ہم نئے افغان صدر سے معاہدے پر دستخط حاصل کرلیں گے۔
افغانستان سے امریکی اور اتحادی فورسز کے انخلا کے بعد طالبان کے خطرے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں سابق امریکی سفارت کا رکا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں افغان عوام ایسے کسی بھی خطرے کا پوری قوت سے مقابلہ کریں گے اور وہ طالبان دور کے بعد حاصل ہونے والی کامیابیوں سے کسی صورت محروم ہونا پسند نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان، امریکہ اور دوسرے ملکوں کو بھی چاہیئے کہ وہ افغان عوام کی مدد کریں۔
انہوں نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ بین الاقوامی کمیونٹی شکاگو میں ہونے والے نیٹو اجلاس کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے افغانستان میں اپنی مناسب موجودگی برقرار رکھے گی، تاکہ ان کامیابیوں کو جن کے حصول کے لیے افغان عوام کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی فورسز نے بھی اپنی جانیں قربان کی ہیں، قائم رکھا جا سکے۔