پاکستان کی پارلیمان اور پشتون تحفظ موومنٹ کے درمیان پہلی مرتبہ باضابطہ رابطہ ہونے پر منظور پشتین کا کہنا ہے کہ حکومت کے ساتھ ہونے والی بات چیت مذاکرات نہیں تھے۔ ہم پارلیمان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات سمجھانے کے لیے گئے تھے، کون کون سے مسائل پر کس کے ساتھ اور کس نے مذاکرات کرنے ہیں وہ میں اکیلا نہیں بلکہ سب دوستوں کی مشاورت سے ہو گا۔
پاکستانی پارلیمان اور پشتون تحفظ موومنٹ کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ گزشتہ روز اسلام آباد میں ہوا، جس میں پشتون تحفظ موومنت کے 9 رکنی وفد نے شرکت کی اور قبائلی علاقوں سمیت پشتونوں کو درپیش مسائل سے انہیں آگاہ کیا۔
اس ملاقات کے بارے میں منظور پشتین نے فیس بک پر ایک پیغام جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ یہ مذاکرات نہیں تھے، صرف پی ٹی ایم کے مطالبات سمجھانے کے لئے بات کرنے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس ملاقات میں ہم نے واضح کہہ دیا کہ مذاکرات جب ہم نے جس سے کرنے ہوں، پہلے ہم اپنے پشتون ساتھیوں سے مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے۔ ہم اپنے ساتھیوں سے مشاورت کریں گے کہ کون سے مسائل پر ہم نے کس کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں۔
اس سلسلے میں پی ٹی ایم کے رہنما اور بات چیت میں موجود شفیق ترین کہتے ہیں کہ ابھی کوئی باضابطہ مذاکرات شروع نہیں ہوئے۔
شفیق ترین کا کہنا تھا کہ ہم مذاکرات سے کسی صورت نہیں بھاگ رہے۔ ہم بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے جو مطالبات ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ان کو بھی سنا جائے اور ان کو حل کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ اس ملاقات میں پاکستان کی افغان پالیسی کے حوالے سے بھی بات ہوئی اور پی ٹی ایم نے اپنا موقف پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھا ہے۔
یہ بات چیت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب سابق قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخواہ میں ضم ہونے کے بعد پہلی مرتبہ انتخابات کا شیڈول جاری ہوا ہے۔ حکومت اور ریاستی اداروں نے بالواسطہ طور پر پی ٹی ایم کو انتخابی عمل میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ لیکن پشتون تحفظ موومنٹ کا کہنا ہے کہ ان کی تحریک کا ایجنڈا غیر سیاسی ہے اور اس کا مقصد صرف آئین میں دیے گئے حقوق حاصل کرنا ہے۔
پاکستان کے مختلف حلقوں نے پی ٹی ایم اور حکومت کے درمیان رابطے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی ہم آہنگی کے کنونیئر بیرسٹر سیف الرحمن کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ تمام مسائل کو بات چیت سے حل کیا جائے۔
بیرسٹر سیف الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم نے پی ٹی ایم کے تمام مطالبات کو سنا ہے اور اس کے بعد ہم ان مطالبات کو تحریری صورت میں سینیٹ میں پیش کریں گے۔ جس کے بعد پاکستان کے ریاستی اداروں اور حکومت تک سفارشات پہنچائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کے مطالبات قابل عمل ہیں اور ان پر بات کی جانی چاہیے۔
پشتون تحفظ موومنٹ نے چند روز قبل میران شاہ میں ایک کامیاب جلسہ کیا تھا جسے قبائلی علاقوں کی تاریخ کا ایک بڑا جلسہ قراردیا جا رہا ہے۔
جلسے میں پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے بھی خطاب کیا تھا۔ پاکستان کے ریاستی اداروں بالخصوص پاکستان کی فوج نے پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرمیوں پر کئی مرتبہ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ پرامن تحریک ہے لیکن ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا گیا اور حدود سے تجاوز کیا گیا تو ریاست حرکت میں آئے گی۔