فسادات اور جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ بدھ کو ملک کے جنوبی علاقوں سے شروع ہوا تھا جو جمعرات کو ملک کے وسطی صوبوں تک پھیل گیا۔
واشنگٹن —
ویتنام میں چین کے خلاف جاری پرتشدد احتجاجی مظاہرے فسادات کی شکل اختیار کرگئے ہیں جن میں اب تک کم از کم 21 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
حکام کے مطابق فسادات اور جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ بدھ کو ملک کے جنوبی علاقوں سے شروع ہوا تھا جو جمعرات کو ملک کے وسطی صوبوں تک پھیل گیا۔
حکام کے مطابق وسطی صوبے ہاتنِ میں بدھ کی شب ہونے والے فسادات کے دوران پانچ ویتنامی مزدور اور 16 دیگر افراد ہلاک ہوئے ہیں جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ چینی باشندے ہیں۔
علاقے کے مرکزی اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ فسادات کے دوران زخمی ہونے والے 100 سے زائد افراد کو طبی امداد کے لیے مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے جن میں سے بیشتر کا تعلق چین سے ہے۔
حکام اور ڈاکٹروں کے دعوے کے برعکس ویتنام کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے فسادات میں صرف ایک شخص کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'شنہوا' کے مطابق فسادات میں چین کے دو شہری ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے ہیں جنہیں اسپتالوں میں طبی امداد دی جارہی ہے۔
مظاہرین نے فسادات کے دوران ایک زیرِ تعمیر غیر ملکی اسٹیل مل کو بھی نذرِ آتش کردیا ہے جو تائیوان کی کمپنی کی ملکیت تھا۔ کمپنی کے مطابق 2017ء میں مکمل ہونے کے بعد یہ کارخانہ جنوب مشرقی ایشیا کا سب سے بڑا اسٹیل مل ہوتا۔
حکام کا کہنا ہے کہ اسٹیل مل کو ویتنامی اور چینی مزدوروں کے درمیان تصادم کےبعد آگ لگائی گئی۔ تصادم میں ایک چینی مزدور ہلاک اور 90 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
ویتنام کے وزیرِ اعظم گوئن ٹانڈنگ نے پولیس اور صوبائی انتظامیہ کو امن و امان بحال کرنے اور فسادات سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں اور املاک کا تحفظ یقینی بنانے کا حکم دیا ہے۔
ویتنام کی وزارت برائے منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری نے فسادات کا الزام "شدت پسندوں" پر عائد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ حالات کی خرابی کے نتیجے میں ویتنام سے غیر ملکی سرمایہ کار واپس جاسکتے ہیں جس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
چین کی جانب سے بحیرۂ جنوبی چین کے متنازع علاقے میں ایک 'آئل رِگ' نصب کرنے کے خلاف ویتنام میں رواں ہفتے احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جنہوں نے بعد ازاں ملک کے جنوبی علاقے میں قائم 'صنعتی زونز' میں فسادات کی صورت اختیار کرلی تھی۔
فسادات کے دوران مظاہرین نے مختلف صنعتی علاقوں میں قائم کئی غیر ملکی فیکٹریوں کو بھی نذرِ آتش کردیا ہے۔
خیال رہے کہ ویتنام میں 190 رجسٹرڈ صنعتی زونز ہیں جن میں ہزاروں چینی مزدور کام کرتے ہیں جن میں سے سیکڑوں نے فسادات کےبعد پڑوسی ملک کمبوڈیا میں پناہ لے لی ہے۔
حکام کے مطابق فسادات اور جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ بدھ کو ملک کے جنوبی علاقوں سے شروع ہوا تھا جو جمعرات کو ملک کے وسطی صوبوں تک پھیل گیا۔
حکام کے مطابق وسطی صوبے ہاتنِ میں بدھ کی شب ہونے والے فسادات کے دوران پانچ ویتنامی مزدور اور 16 دیگر افراد ہلاک ہوئے ہیں جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ چینی باشندے ہیں۔
علاقے کے مرکزی اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ فسادات کے دوران زخمی ہونے والے 100 سے زائد افراد کو طبی امداد کے لیے مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے جن میں سے بیشتر کا تعلق چین سے ہے۔
حکام اور ڈاکٹروں کے دعوے کے برعکس ویتنام کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے فسادات میں صرف ایک شخص کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'شنہوا' کے مطابق فسادات میں چین کے دو شہری ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے ہیں جنہیں اسپتالوں میں طبی امداد دی جارہی ہے۔
مظاہرین نے فسادات کے دوران ایک زیرِ تعمیر غیر ملکی اسٹیل مل کو بھی نذرِ آتش کردیا ہے جو تائیوان کی کمپنی کی ملکیت تھا۔ کمپنی کے مطابق 2017ء میں مکمل ہونے کے بعد یہ کارخانہ جنوب مشرقی ایشیا کا سب سے بڑا اسٹیل مل ہوتا۔
حکام کا کہنا ہے کہ اسٹیل مل کو ویتنامی اور چینی مزدوروں کے درمیان تصادم کےبعد آگ لگائی گئی۔ تصادم میں ایک چینی مزدور ہلاک اور 90 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
ویتنام کے وزیرِ اعظم گوئن ٹانڈنگ نے پولیس اور صوبائی انتظامیہ کو امن و امان بحال کرنے اور فسادات سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں اور املاک کا تحفظ یقینی بنانے کا حکم دیا ہے۔
ویتنام کی وزارت برائے منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری نے فسادات کا الزام "شدت پسندوں" پر عائد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ حالات کی خرابی کے نتیجے میں ویتنام سے غیر ملکی سرمایہ کار واپس جاسکتے ہیں جس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
چین کی جانب سے بحیرۂ جنوبی چین کے متنازع علاقے میں ایک 'آئل رِگ' نصب کرنے کے خلاف ویتنام میں رواں ہفتے احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جنہوں نے بعد ازاں ملک کے جنوبی علاقے میں قائم 'صنعتی زونز' میں فسادات کی صورت اختیار کرلی تھی۔
فسادات کے دوران مظاہرین نے مختلف صنعتی علاقوں میں قائم کئی غیر ملکی فیکٹریوں کو بھی نذرِ آتش کردیا ہے۔
خیال رہے کہ ویتنام میں 190 رجسٹرڈ صنعتی زونز ہیں جن میں ہزاروں چینی مزدور کام کرتے ہیں جن میں سے سیکڑوں نے فسادات کےبعد پڑوسی ملک کمبوڈیا میں پناہ لے لی ہے۔