میمو تنازع : انکشاف سے حسین حقانی کے مستعفی ہونے تک

میمو تنازع : انکشاف سے حسین حقانی کے مستعفی ہونے تک

پاکستانی نژاد امریکی تاجر منصوراعجاز کی جانب سے مائیک مولن کو لکھے گئے متنازع میمو کا قصہ ، سابق سفیر حسین حقانی کی جانب سے استعفے کے بعد اگرچہ ختم نہیں ہوا لیکن ان کا استعفیٰ اس قصے میں ایک اہم موڑ پیدا کرگیا ہے۔اب اس قصے میں جو بھی اتار چڑھاوٴ آئیں گے وہ اسی موڑ سے شروع ہوں گے۔ماہرین کے نزدیک اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جب جب زرداری حکومت کا ددر یاد کیا جائے گا ، حکومت کو درپیش مسائل میں متنازع میمو کا ذکر بھی نمایاں ہوگا۔

اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ میمو کے اس قصے نے یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بذات خود یا ان کی باتیں پیپلز پارٹی کے لئے اب بھی اہم ہیں اور ان پر اب بھی حکومت کی’ نظر ‘ہے۔آیئے ذیل میں اس بات کا جائزہ لیں کہ شاہ محمود قریشی کے انکشاف کے بعد میمو تنازع کب کب اور کن کن مراحل سے گزرا۔

20نومبر : شاہ محمود قریشی کا انکشاف

میمو اگرچہ مئی 2011ء کے پہلے عشرے کے اختتام پر لکھا گیا تھا تاہم پاکستانی میڈیا پراس کا انکشاف ایک ہفتہ قبل یعنی 14نومبر کو شاہ محمود قریشی نے اپنی اسی پریس کانفرنس میں کیا تھا جس میں انہوں نے اپنے استعفے کا اعلان کیا تھا ۔ پریس کانفرنس کے بعد اس میمو کا ذکرپاکستانی میڈیا پر ایسا چھایا کہ پوری قوم آٹھ دنوں سے منصور اعجاز کے الزامات اور حسین حقانی کی وضاحت سے مزید الجھتی ہی گئی اور ہر روز اس معاملے کو شہ سرخیوں میں جگہ ملتی رہی ۔

شاہ محمود قریشی نے مطالبہ کیا کہ صدر زرداری کے امریکی حکام کے نام منصور اعجاز کا مبینہ مراسلہ اگر غلط ہے تو حکومت کارروائی کرے اور اگر یہ بات درست ہے تو سپریم کورٹ از خود نوٹس لے ۔ فوج کے سپریم کمانڈر کی امریکہ سے مدد کی درخواست تعجب کی بات ہے ۔

سولہ نومبر

قومی اسمبلی میں وزیراعظم نے کہا کہ منصور اعجاز کے’ فنانشل ٹائمز‘ میں لکھے گئے مضمون سے ہمیں کوئی خوف نہیں ، حسین حقانی کو وضاحت کیلئے طلب کیا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں کوئی ایسی ہلچل نہ تھی کہ کسی کو خط لکھا جاتا۔ قومی مفاد میں ہم سب یکجا ہیں ،

سترہ نومبر

پاکستانی اخبار ” جنگ “ کے مطابق سابق چیئرمین امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی مائیک ملن نے منصور اعجاز کے خفیہ میمو وصول کرنے کی تصدیق کی۔ ترجمان جان کروبی نے امریکی جریدے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مولن نے اس میموپر کوئی توجہ نہیں دی اور اسے قابل اعتبار نہیں سمجھا اور اس لئے کسی سے اس کا ذکر بھی نہیں کیا ۔

اسی روز حقانی نے امریکی جریدے کو انٹرویو میں کہا کہ میمو بھیجنے کی ترید د کرتے ہیں ، نہ مجھے کسی نے کہا کہ ایسا خط لکھواور نہ میں نے کسی کو کہا ، میری اور منصور اعجاز کی گزشتہ دس سالوں میں دو تین بار ملاقاتیں ہوئیں اور یہ ملاقاتیں کسی دعوت ، تقریب یا کبھی کبھار فون پر ہوئی ہیں ۔ میرے مولن سے ذاتی تعلقات ہیں ، مجھے منصور کی ضرورت نہیں تھی ۔

اٹھارہ نومبر

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں بیان دیا کہ مولن کو لکھے گئے خط کی تحقیقات منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔اسی دن پیپلزپارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں متنازعہ میمو کی سازش ناکام بنانے کا عزم ظاہر کیا گیا ۔کور کمیٹی کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑی تو حقانی کو پارلیمنٹ کے سامنے بلایا جائے گا۔

اٹھارہ نومبر کو ہی پاکستان کے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی تاجر منصور اعجاز نے کہا کہ وہ نہ صرف پاکستان میں انکوائری کے لئے پیش ہونے کو تیارہیں بلکہ حسین حقانی اور ان سے ڈائیلاگ کیلئے بھی تیار ہیں ۔

انیس نومبر

پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں وزیراعظم نے کہا کہ حقانی کو سنے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کریں گے ، میمو کو ئی ایسا ایشو نہیں کہ ملک خطرے میں پڑ گیا ہو ۔دوسری جانب نوازشریف نے مندرہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میمو کی غیر جانبدارانہ تحقیقات نہ ہوئی تو سپریم کورٹ جائیں گے۔ ادھر امریکا کے دفاعی ادارے پینٹا گون نے کہا کہ میمو قابل بھروسہ نہیں تھا اس لئے اس کا نوٹس نہیں لیا۔

بیس نومبر

حسین حقانی پاکستان پہنچے۔ صدر سے ملاقات کی۔ بلیک بیری صدر کے حوالے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میمو سازش ہے۔ اسی دن سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے فیصل آباد میں جلسے سے خطاب کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے میمو کی انکوائری چندروز میں کرائے جانے کا الٹی میٹم دیا ۔

اکیس نومبر

منصور اعجاز نے نجی ٹی وی چینل ’ایکسپریس ‘سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حسین حقانی اور وہ ایک لمبے عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ تاہم حسین حقانی نے وزارت خارجہ اور ایوان صدر کے سامنے بھی اس بات سے انکار کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک سازش ہے ۔

22نومبر

حسین حقانی سے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے استعفیٰ طلب کرلیا۔