دنیا بھر میں ہر سال بچوں اور خواتین سمیت ہزاروں افراد باردوی سرنگوں، بم دھماکو ں اور حادثوں کے نتیجے میں ہاتھ پاؤں کٹ جانے کے باعث جسمانی معذوری کاشکار ہوجاتے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے انہیں اپنے روزمرہ کے معمولات کی ادائیگی کے قابل بنانے کے لیے مصنوعی اعضاء سے مدد لی جارہی ہے۔ تاہم اب سائنس دان ایسے مصنوعی اعضاء بنانے کے قابل ہوگئے ہیں جنہیں انسانی دماغ اپنے اعصاب کے ذریعے حرکت دے سکے گا اور چھونے اور محسوس کرنے کی حس کام میں لاسکے گا۔
افغانستان اور عراق کی جنگ میں جن فوجیوں کے اعضاء کٹ جاتے ہیں ، ان میں سے زیادہ تر واشنگٹن میں قائم والٹرریڈاسپتال میں مصنوعی اعضاء لگوانے کی غرض سے آتے ہیں۔وہاں ڈاکٹر ٹاڈ کیوکن ان کی مدد کرتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ایک ایسا مصنوعی ہاتھ تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جو معذور شخص کے دماغ کی ہدایات پر کام کرتا ہے۔
ڈاکٹر کیوکن نے مصنوعی بازو کے کام کرنے کے طریقے کے بارے میں بتایا کہ اسے ان نسوں کے ساتھ منسلک کردیا جاتا ہے جوہاتھ کھولنے اور بند کرنے کے عمل میں کام کرتی ہیں ۔ ان نسوں کو سینے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کے پٹھوں کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔
ان کا کہناتھا کہ مصنوعی بازو لگنے کے بعد گلین جب یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی انگلیاں بند کریں تو ان کا دماغ اعصاب کے ذریعے یہ حکم مصنوعی بازو کو دیتا ہے اور وہ اپنے الیکٹرانک سرکٹ کے ذریعے اس حکم پر عمل درآمد کرتاہے۔
مصنوعی بازو سے منسلک اعصاب پر برقی پلیٹیں لگائی گئی ہیں ۔ وہ دماغ سے آنے والا پیغام موصول کرکے اس پر عمل کراتی ہیں۔اور مصنوعی بازو حرکت کرنے لگتا ہے۔
مریض اپنے ہاتھوں اور انگلیوں کی نوک میں بھی اعصاب لگوا سکتے ہیں ، جس سے وہ چھوکر محسوس کرنے کی صلاحیت حاصل کرسکتے ہیں۔اور کسی چیز کے گرم یا سرد ہونے کے بارے میں بھی بتاسکتا ہے۔
ڈاکٹر کیوکن کا کہنا ہے کہ اب وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے جب اپنے اعضاء سے محروم ہونے والے افراد ، جدید مصنوعی اعضاء کی مدد سے عام لوگوں کی طرح زندگی گذارسکیں گے۔