اگر انسان خود کار اور بغیر ڈرائیور کے چلنے والی کار میں سفر کر رہا ہو تو کیا وہ سو نہیں سکتا؟ کینیڈا میں اس سوال کا جواب ایک شخص کو جرمانے کی شکل میں اس وقت مل گیا جب وہ اپنی کار کو آٹو پائلٹ موڈ میں ڈال کر خود مبینہ طور پر سو گیا۔
کینیڈین پولیس کے مطابق انہوں نے ہائی وے پر حدِ رفتار سے تجاوز کرنے والی ایک گاڑی کے مسافر پر 'خطرناک ڈرائیونگ' کی دفعہ کے تحت جرمانہ عائد کیا ہے جو اپنی کار کو مبینہ طور پر آٹو پائلٹ موڈ پر سیٹ کر کے سو رہا تھا۔
یہ واقعہ کینیڈا کے صوبے البرٹا میں پیش آیا جس کی اطلاع مقامی پولیس نے جمعرات کو ایک ٹوئٹ کے ذریعے دی۔
ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ گاڑی 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ رہی تھی جب کہ ہائی وے کے اس مقام پر رفتار کی حد 110 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔
پولیس کے مطابق گاڑی کی اگلی دونوں سیٹیں پیچھے کی طرف پھیلی ہوئی حالت میں تھیں اور گاڑی کے اندر موجود شخص سو رہا تھا۔
کینیڈا کے نشریاتی ادارے 'کینیڈین براڈکاسٹنگ کارپوریشن' (سی بی سی) کے مطابق مذکورہ گاڑی امریکہ کی مشہور کار ساز کمپنی 'ٹیسلا' کی الیکٹرک کار تھی جس میں ایک 20 سالہ نوجوان سفر کر رہا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایک پولیس سارجنٹ ڈارن ٹرن بل نے سی بی سی کو بتایا کہ وہ یہ منظر دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے اور انہوں نے دو دہائیوں پر مبنی اپنی ملازمت میں پہلے کبھی ایسا کیس نہیں دیکھا تھا۔
پولیس اہل کار کے بقول لیکن پہلے ایسی ٹیکنالوجی بھی نہیں ہوتی تھی۔
پولیس اہل کار نے کہا کہ گاڑی کی 'ونڈ شیلڈ' سے کوئی بھی باہر نہیں دیکھ رہا تھا کہ گاڑی جا کہاں رہی ہے۔
خیال رہے کہ ٹیسلا کی گاڑیاں آٹو پائلٹ موڈ میں چلتے ہوئے موڑ پر مڑ سکتی ہیں اور لین بھی تبدیل کر سکتی ہیں۔ رفتار کم اور زیادہ کر سکتی ہیں۔ اور بریک بھی خود کار طریقے سے لگا سکتی ہیں۔ لیکن اس کے لیے گاڑی کا ایک لین میں چلنا ضروری ہے۔ البتہ خودکار نظام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس میں انسانی عمل دخل بالکل ہی نہ ہو۔
ٹیسلا نے اپنی ویب سائٹ پر متنبہ کیا ہے کہ اس کے موجودہ آٹو پائلٹ فیچر کو ڈرائیور کی مستعد نگرانی درکار ہے اور اس کا آٹو پائلٹ موڈ گاڑی کو خود مختار نہیں بناتا۔