مالدیپ: ہنگامی حالت نافذ، چیف جسٹس اور سابق صدر گرفتار

دارالحکومت مالے کی مرکزی شاہراہ پر فوج موجود ہے۔

مالدیپ کی پولیس نے ٹوئٹر پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ چیف جسٹس عبداللہ سعید اور سپریم کورٹ کے جج علی حمید کو ان کے خلاف پہلے سے جاری تحقیقات کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔

مالدیپ میں جاری سیاسی بحران کے پیشِ نظر صدر عبداللہ یامین نے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کردی ہے جس کے بعد پولیس نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت دو ججوں اور ایک سابق صدر کو حراست میں لے لیا ہے۔

مالدیپ کی پولیس نے ٹوئٹر پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ چیف جسٹس عبداللہ سعید اور سپریم کورٹ کے جج علی حمید کو ان کے خلاف پہلے سے جاری تحقیقات کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔

تاہم پولیس نے دونوں ججوں پر عائد الزامات کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی ہے۔

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق مالدیپ کی سکیورٹی فورسز کے دستوں نے پیر کی شب سپریم کورٹ کی جانب جانے والے راستے رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیے جب کہ فوجی دستے عدالت کی عمارت کے اندر بھی داخل ہوگئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق چیف جسٹس اور ان کے کچھ ساتھی جج عدالت کے اندر ہی موجود ہیں جنہیں عمارت سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔

مالدیپ کے حالیہ سیاسی بحران کا آغاز گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کی جانب سے سابق صدر محمد نشید اور حزبِ اختلاف کے آٹھ دیگر رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کے الزامات پر دیے گئے فیصلے کالعدم قرار دینے کے حکم کے بعد ہوا تھاجس پر صدر یامین کی حکومت نے عمل درآمد سے انکار کردیا تھا۔

نشید جمہوری انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے مالدیپ کے پہلے صدر تھے جو 2013ء کے انتخابات میں صدر یامین سے ہار گئے تھے۔ وہ ان دنوں خود ساختہ جلا وطنی پر سری لنکا میں مقیم ہیں اور رواں سال اکتوبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند ہیں۔

عدالتِ عظمیٰ نے حزبِ اختلاف کے ان چھ رہنماؤں کو بھی رہا کرنے کا حکم دیا ہے جنہیں مالدیپ کی موجودہ حکومت نے ایک دور دراز اور غیر آباد جزیرے پر قائم جیل میں رکھا ہوا ہے۔

مالدیپ کی پولیس نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے جیلوں میں قید حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو رہا کرنے کا عندیہ دیا تھا جس کے بعد صدر یامین جمعرات سے اب تک دو پولیس سربراہان کو برطرف کرچکے ہیں۔

پیر کو مالدیپ کے اٹارنی جنرل نے وزیرِ دفاع اور پولیس کے نئے سربراہ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ سپریم کورٹ صدر یامین کو عہدے سے برطرف کرنے کی سازش کر رہی ہے جسے ان کے بقول ہر قیمت پر ناکام بنایا جائے گا۔

اٹارنی جنرل نے اعلان کیا تھا کہ حکومت نے پولیس اور فوج کو ہدایت کی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے حکومت کے خلاف دیے جانے والے کسی فیصلے پر عمل درآمد نہ کرے۔

اٹارنی جنرل کی اس پریس کانفرنس کے چند گھنٹے بعد صدر یامین نے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز کو سپریم کورٹ کا کنٹرول سنبھالنے کا حکم دیا تھا۔

صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق قومی سلامتی کو درپیش حالیہ خطرات کے باعث صدر نے مجبوراً ملک میں ہنگامی حالت نافذ کی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ عوامی مفادات کے پیشِ نظر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے۔

ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد مالدیپ کی پولیس نے ملک کے سابق صدر مامون عبدالقیوم کو بھی ان کے داماد سمیت ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرلیا ہے۔

مامون عبدالقیوم 30 سال تک مالدیپ کے صدر رہنے کے بعد 2008ء میں اپنے عہدے سے دستبردار ہوئے تھے۔ موجودہ صدر یامین کے سوتیلے بھائی ہونے کے باوجود مامون عبدالقیوم حزبِ اختلاف کا حصہ ہیں اور ان کا ایک بیٹا فارس جزیرے پر قید حزبِ اختلاف کے ان چھ رہنماؤں میں شامل ہے جن کی رہائی کا سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے۔

مالدیپ میں جاری حالیہ بحران کے بعد امریکہ، چین اور بھارت نے اپنے شہریوں کو مالدیپ کا سفر کرنے سے گریز کا مشورہ دیا ہے جب کہ امریکی محکمۂ خارجہ نے ہنگامی حالت کے نفاذ کی مذمت کرتے ہوئے حکومت اور سکیورٹی فورسز سے قانون اور آئین کی پاسداری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔