سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ پہلے مرحلے میں شکست کھانے والے امیدوار کی اس درخواست پر سنایا جس میں ان کی جماعت کی سیاسی وجوہات کی بنا پر دوسرا مرحلہ موخر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
مالدیپ کی عدالت عظمیٰ نے ملک میں صدارتی انتخابات کے اتوار کو ہونے والے دوسرے مرحلے کو روکنے کا حکم دیا ہے۔
پہلے مرحلے میں سابق صدر محمد نشید نے برتری حاصل کی تھی۔
سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ پہلے مرحلے میں شکست کھانے والے امیدوار کی اس درخواست پر سنایا جس میں ان کی جماعت کی سیاسی وجوہات کی بنا پر دوسرا مرحلہ موخر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
فیصلے میں دوسرے مرحلے کے لیے کوئی حتمی تاریخ نہیں بتائی گئی لیکن عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ اس کے لیے 16 نومبر مناسب رہے گی۔
ہفتے کو مسٹر نشید نے پہلے مرحلے میں 47 فیصد اور ان کے مد مقابل عبداللہ یامین نے تقریباً 30 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ یامین لگ بھگ تین دہائیوں تک برسراقتدار رہنے والے مامون عبدالقیوم کے سوتیلے بھائی ہیں۔
صدارتی انتخاب میں کوئی امیدوار بھی درکار 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کرسکا جس کی وجہ سے انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ووٹ ڈالے جانے تھے۔
صدر کے انتخاب میں تاخیر ملک کو سیاسی بحران کی طرف دھکیل سکتی ہے کیونکہ پیر تک نئے صدر تقرر ضروری ہے۔
امریکہ محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے دوسرے مرحلے کے لیے نئی تاریخ کے مطالبے کو ناقابل قبول اور غیر موزوں قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مالدیپ میں جمہوریت کی پیش رفت کے لیے لازمی ہے کہ دوسرا مرحلہ طے کردہ اوقات میں منعقد ہو۔
سابق صدر محمد نشید نے ستمبر میں بھی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن سپریم کورٹ نے مبینہ دھاندلی کی اطلاعات پر نتائج کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ حکام نے گزشتہ ماہ اعلان کردہ انتخابات کو بھی منسوخ کردیا تھا۔
مسٹر نشید 2008ء میں مامون عبدالقیوم کو شکست دے کر ملک کے صدر بنے تھے لیکن مالدیپ میں سیاسی بحران کے وجہ سے انھیں گزشتہ سال مستعفی ہونا پڑا تھا۔
پہلے مرحلے میں سابق صدر محمد نشید نے برتری حاصل کی تھی۔
سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ پہلے مرحلے میں شکست کھانے والے امیدوار کی اس درخواست پر سنایا جس میں ان کی جماعت کی سیاسی وجوہات کی بنا پر دوسرا مرحلہ موخر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
فیصلے میں دوسرے مرحلے کے لیے کوئی حتمی تاریخ نہیں بتائی گئی لیکن عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ اس کے لیے 16 نومبر مناسب رہے گی۔
ہفتے کو مسٹر نشید نے پہلے مرحلے میں 47 فیصد اور ان کے مد مقابل عبداللہ یامین نے تقریباً 30 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ یامین لگ بھگ تین دہائیوں تک برسراقتدار رہنے والے مامون عبدالقیوم کے سوتیلے بھائی ہیں۔
صدارتی انتخاب میں کوئی امیدوار بھی درکار 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کرسکا جس کی وجہ سے انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ووٹ ڈالے جانے تھے۔
صدر کے انتخاب میں تاخیر ملک کو سیاسی بحران کی طرف دھکیل سکتی ہے کیونکہ پیر تک نئے صدر تقرر ضروری ہے۔
امریکہ محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے دوسرے مرحلے کے لیے نئی تاریخ کے مطالبے کو ناقابل قبول اور غیر موزوں قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مالدیپ میں جمہوریت کی پیش رفت کے لیے لازمی ہے کہ دوسرا مرحلہ طے کردہ اوقات میں منعقد ہو۔
سابق صدر محمد نشید نے ستمبر میں بھی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن سپریم کورٹ نے مبینہ دھاندلی کی اطلاعات پر نتائج کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ حکام نے گزشتہ ماہ اعلان کردہ انتخابات کو بھی منسوخ کردیا تھا۔
مسٹر نشید 2008ء میں مامون عبدالقیوم کو شکست دے کر ملک کے صدر بنے تھے لیکن مالدیپ میں سیاسی بحران کے وجہ سے انھیں گزشتہ سال مستعفی ہونا پڑا تھا۔