ملیریا سے بچاو کی پہلی ویکسین دستیاب ہونے سے نہ صرف اس مرض پر قابو پانے کی امید روشن ہو گئی ہے، بلکہ یہ موقع اس بات کی طرف بھی توجہ مبذول کراتا ہے کہ دنیا کی 'قدیم ترین' وبا کے خلاف ہر سمت سے قابو پانے کی کوشش کی جائے۔
یہ بات امریکی صدر کے 'ملیریا انی شئیٹو' کے سربراہ نے اس مرض پر قابو پانے کے پانچ سالہ منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہی۔
ڈاکٹر راج پنجابی، جو پی ایم آئی پروگرام کے متظم ہیں، کہتے ہیں کہ اگرچہ ملیریا امریکہ میں مقامی سطح پر ہونے والا مرض نہیں ہے، صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے اس پر قابو پانے کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ پی ایم آئی امریکہ کا سرکاری پروگرام ہے جس کا مقصد اس مرض پر قابو پانا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر پنجابی نے کہا کہ اس مرض کے خلاف جنگ ایک درست اقدام ہے۔ ان کے بقول، "اس مرض سے ہر سال چار لاکھ سے زائد افراد اپنی جانیں کھو دیتے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔ درحقیقت ہر دو منٹ کے بعد ملیریا سے ایک بچہ دم توڑ دیتا ہے۔ اور ہر سال ملیریا کے بیس کروڑ سے زیادہ کیسز ہوتے ہیں۔ یہ دنیا کی قدیم ترین وبا ہے۔ اور یہ وہ وبا ہے جس نے زیریں صحرا افریقہ میں کسی بھی اور مرض کے مقابلے میں زیادہ بچوں کو ہلاک کیا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "چنانچہ اس وجہ سے اس بیماری کے خلاف کوششیں کرنا درست اقدام ہے۔ ایسا کرنا ایک اخلاقی عمل ہے۔ ہمارے پاس اس مرض کے خلاف لڑنے کے آلات ادویات اور ٹیسٹس ہیں۔ اور اب ہمارے پاس ایک ویکسین بھی ہے جو لوگوں کی زندگیوں کو بچا سکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کا اس مرض کے خلاف کامیابی حاصل کرنا امریکہ کے مفاد میں ہے۔"
خیال رہے کہ اس ہفتے عالمی ادارہ صحت نے ملیریا سے بچاو کی ویکسین کا اعلان کرتے ہوئے اسے سائنس، بچوں کی صحت اور ملیریا پر قابو پانے کے سلسلے میں ایک اہم کامیابی قرار دیا تھا۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ادھونم گیبریسئس نے کہا کہ موجود دیگر وسائل کے ساتھ ساتھ اس ویکسین کے استعمال سے ہزاروں کم عمر لوگوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔
نئی ویکسین کو دو سال کی عمر سے کم بچوں کے لیے بنایا گیا ہے اور اسے چار خوراکوں کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ افریقی ممالک میں کیے گئے اس کے تجربوں نے ثابت کیا ہے کہ یہ ویکسین ملیریا کے تیس فیصد سخت کیسوں کے انسداد کے سلسلے میں کارگر ثابت ہوئی ہے۔
بظاہر اس تحقیق کے اعداد و شمار کچھ مایوس کن سے دکھائی دیے، لیکن پاتھ نامی تنظیم کی ایم وی آئی پروگرام کی ڈائریکٹر ایشلے برکٹ کہتی ہیں کہ یہ ویکسین ملیریا کے خلاف جنگ میں کئی ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار ہے۔
SEE ALSO: عالمی ادارۂ صحت نے بچوں کے لیے ملیریا کی پہلی ویکسین کی تجویز دے دیان کے ادارہ دنیا میں حفظان صحت کےلیے کام کرتا ہے اور اس نے ملیریا سے بچاو کی ویکسین کی تیس سال پر محیط تیاری میں حصہ لیا۔
ایشلے برکٹ نے کہا کہ "تیس فیصد ہمیں کم دکھائی دیتا ہے لیکن جب ملیریا کے اتنے بڑے مسئلے کو دیکھیں اور اس بات کو دیکھیں کہ ہر سال دو لاکھ ساٹھ ہزار بچے اس مرض سے کی نذر ہو جاتے ہیں؛ تو پتا چلتا ہے کہ ویکسین علاج معالجے کے دوسرے ذرائع کے ساتھ مل کر ہمیں حفاظت فراہم کرتی ہے اور یہ بہت اثر انگیز ہو سکتی ہے۔"
ڈاکٹر پنجابی نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ صدر کے انسداد ملیریا کے پروگرام کے تحت اعلان کیا گیا کہ ہر سال ایک ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے اور اس کا ہدف ہر سال چالیس لاکھ جانیں بچانا ہو گا۔ اس پروگرام کے تحت اگلے پانچ سال میں ایک ارب انفیکشنز سے بچا جاسکتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ طبی کامیابیاں سب کچھ نہیں ہیں، اس پوری کوشش میں ایک اہم عنصر مقامی لوگوں کی تربیت ہے، ان کی کمیونیٹی ورکرز کی حیثیت سے خدمات حاصل کی جائیں تاکہ ٹیسٹس اور ادویات کو لوگوں کے گھروں تک پہنچایا جاسکے۔ دوسرا یہ کہ ہمیں ویکسین کو مزید موثر بنانے کی کوشش جاری رکھنا ہوگی۔
ڈاکٹر پنجابی نے کہا کہ سائنسدانوں کو ملیریا کی ویکسین میں تین عشروں کا طویل عرصہ اس لیے لگا کہ پیراسائٹس کو قابو کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ اس کی 5,300 جینز ہیں۔ اس کے مقابلے میں کووڈ نائنٹین کی صرف دس جینز ہیں۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ملیریا کا لائف سائیکل نہایت پیچیدہ ہوتا ہے۔ یہ مچھروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ لہٰذا انسانی قوت مدافعت کو اس کے خلاف تیار کرنا بہت دشوار ہے۔ یہ انسانی خون میں کئی مراحل سے گزرتا ہے۔ جو کامیابی اب حاصل ہوئی ہے وہ بہت ہی عظیم ہے، جسے حاصل کرنے میں کئی عشرے لگے۔