اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی کا 77واں اجلاس جاری ہے۔ نیو یارک شہر میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے آئے سربراہان مملکت ، ان کے وفود اور ان کی بھاری بھرکم سیکیورٹی جا بجا دیکھی جا سکتی ہے۔ اس اجلاس میں، عالمی امن، صحت، تعلیم، خوراک اور دنیا کے دیگر مسائل پر بات ہورہی ہے۔ اور اس اجلاس کے ساتھ ساتھ دیگر کئی تنظیمیں بھی ان اہم شخصیات کے ساتھ خصوصی تقریبات کا انعقاد کر رہی ہیں۔ اس بھیڑ بھاڑ میں ایک پاکستانی چہرہ ایسا بھی ہے جسے ہر عالمی فورم پر ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور دنیا بھر کے رہنما ان سے ملاقات میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ شخصیت دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز بلند کرنے والی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی ہیں۔
ملالہ ان دنوں نیویارک میں موجود ہیں۔ انہوں نے جنرل اسمبلی میں ٹرانسفارمنگ ایجو کیشن سمٹ کے لیڈرز ڈے کے موقع پر خطاب کیا۔
’’سات سال پہلے، میں اس پلیٹ فارم پر اس امید کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی کہ ایک نوعمر لڑکی کی آواز سنی جائے گی جس نے اپنی تعلیم کے لیے کھڑے ہوتے ہوئے گولی کھائی تھی۔‘‘
Seven years ago I stood on this platform hoping that the voice of a girl who took a bullet for standing up for her education would be heard. Yesterday, @vanessa_vash, Yelizaveta Posivnych, @FaruqiSomaya and returned to once again deliver a message. pic.twitter.com/zRslXU8NWy
— Malala (@Malala) September 20, 2022
یہ ان کے خطاب کے وہ ابتدائی جملے ہیں جو عالمی برادری کو یہ یاد دلانے کے لیے کافی ہیں کہ سات سال گزرنے کے باوجود لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ملالہ نے افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کا ایک سال مکمل ہونے کا بھی ذکر کیا۔
ملالہ نے عالمی برادری کو تعلیم جیسے اہم مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے عالمی رہنماؤں کو مخاطب کر کے کہا
’’آپ میں سے اکثر جانتے ہیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے، مختصر المیعاد ، چھوٹے اور کنجوس وعدے نہیں کرنے چاہیں۔‘‘
اس جملے پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ ملالہ کے ساتھ اس تقریب میں بھارتی اداکارہ پریانکا چوپڑا، اور نو جوان امریکی شاعرہ ایمنڈا گورمین نے بھی خطاب کیا۔
The world has a to-do list, and the time to get it done is now.Behind the scenes with @Malala, UNICEF supporter @TheAmandaGorman and Goodwill Ambassador @priyankachopra at #UNGA. pic.twitter.com/dn5DcwRVPO
— UNICEF (@UNICEF) September 19, 2022
ایجوکیشن سمٹ کے علاوہ ملالہ نے نیویارک پبلک لائبریری کے قریب، افغان روبوٹکس انجینئر اور سرگرم کارکن سومایہ فاروقی اور دیگر افغان کارکنوں کے ہمراہ افغان لڑکیوں کی ہائی اسکول تعلیم پر پابندی کے ایک سال مکمل ہونے پر 'ایڈووکیٹس فارافغان ایجوکیشن' نامی ایک تنظیم کے زیر اہتمام ایک تقریب میں بھی شرکت کی جس کا مقصد اقوام متحدہ پر اس مسئلے کے حل کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔
One year since girls were banned from attending high school in Afghanistan & on the eve of the @TransformingEdu Summit Leaders day we were honoured to be joined by @Malala on the steps of the @nypl to demand concerted action from the @UN & member states to #LetAfghanGirlsLearn pic.twitter.com/P7RLy08BIm
— Advocates for Afghan Education (@AdvAfghanEd) September 19, 2022
ملالہ نے پاکستانی وزیرِخارجہ بلاول بھٹوزرداری سے بھی ملاقات کی اور لڑکیوں کی تعلیم، خواتین کے حقوق، پاکستان میں موجودہ سیلابی صورتحال میں سیلاب زدہ علاقوں کے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔
Met @Malala at #UNGA. Exchanged views on women rights & girls education. Discussed #PakistanFloods & challenges posed by this climate catastrophe to education for millions of young children affected, with thousands of schools destroyed & difficult days ahead. pic.twitter.com/LkWfDq9DsW
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) September 20, 2022
ملالہ دیگر عالمی راہنماؤں کے ہمراہ کلنٹن گلوبل اینشی ایٹو کی دو روزہ تقریبات میں بھی شرکت کر رہی ہیں جس میں موسمیاتی تبدیلیوں ، لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کو درپیش چیلنجز ، چھوٹے کاروباروں کے لیے مدد ، تعلیم میں تفاوت کو ختم کرنا؛ بھوک جیسے دیگر اہم عالمی چیلنجوں پر بات ہو رہی ہے۔
ملالہ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ایک موثر آواز خیال کی جاتی ہیں اور جب بھی بین الاقوامی فورم پر جاتی ہیں، اپنا پیغام پہنچاتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایجو کیشن سمٹ میں عالمی برادری سے خطاب کا اختتامیہ یہ اشارہ دیتا ہے کہ ان کا یہ طویل سفر سہی مگر وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے پرامید ہیں۔
’’آج جب آپ اس کمرے سے نکلیں تو خود سے پوچھیے گا کہ آپ اور کتنی نسلیں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں؟، لڑکیوں کو کب تک آپ کے وعدوں کا انتظار کرنا ہوگا؟ ہمیں اور کتنی بار اس اسٹیج پر آنا ہوگا تاکہ ہماری آواز سنی جا سکے؟‘‘