وائس آف امریکہ کی جانب سے کرائے گئے حالیہ سروے کے مطابق 69 فی صد نوجوان بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ تمام پاکستانی ہی بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، تاہم دیکھنا یہ ہو گا کہ یہ کن شرائط پر ہوتے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے یہ سروے بین الاقوامی ادارے 'اپسوس' کے ذریعے کرایا ہے جس میں 18 سے 34 برس کے نوجوانوں سے یہ سوال بھی کیا گیا تھا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ باہمی تعلقات اچھے ہونے چاہئیں؟
اس سوال کے جواب میں 69 فی صد نوجوانوں نے کہا کہ وہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں جب کہ ہر پانچ میں سے ایک نوجوان نے کہا کہ وہ ایسا نہیں چاہتا۔
بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں نوجوانوں کی سب سے زیادہ شرح (75 فی صد) سندھ میں رہی۔ بلوچستان میں 71 فی صد جب کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں یہ شرح 69 فی صد رہی۔
سروے کے یہ نتائج ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں حالیہ عرصے میں کشیدگی رہی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور سفارتی روابط محدود ہیں۔
اگست 2019 میں بھارت کی جانب سے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید تناؤ آ گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
'نوجوانوں میں خود اعتمادی آئی ہے'
پاکستانی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ پاکستان کے جوہری قوت بننے سے نوجوانوں میں یہ خود اعتمادی آئی ہے کہ کوئی بیرونی طاقت ملک کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 20 برسوں کے دوران میڈیا کا انقلاب آنے سے بھی نوجوانوں میں علاقائی سیاست سے متعلق شعور آیا ہے اور بھارت کے حوالے سے منفی سوچ بھی کم ہوئی ہے۔
اُن کے بقول الیکشن سے پہلے ہونے والا یہ سروے ایک لحاظ سے پاکستان کی پالیسی کا عکس ہے کہ کسی ملک سے دُشمنی کی بنا پر یہاں الیکشن مہم نہیں چلتی۔
مشاہد حسین کہتے ہیں کہ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں اور رائے عامہ میں ایک معقول اور معتدل سوچ پائی جاتی ہے اور ان میں کسی ہمسایے کا خوف نہیں ہے۔
'نوجوان بھارت کو ایک بڑی مارکیٹ کے طور پر دیکھتے ہیں'
بین الاقوامی اُمور کے ماہر ظفر جسپال کہتے ہیں کہ تمام پاکستانی چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں، لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ تعلقات میں بہتری کن شرائط پر ہوتی ہے۔
ظفر جسپال کہتے ہیں کہ پاکستانی نوجوان تنازع کشمیر کے حوالے سے بھی کافی حساس ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کا حل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ لہٰذا یہ وہ معاملہ ہے جہاں آ کر دونوں ملکوں کے تعلقات آگے نہیں بڑھ پاتے۔
SEE ALSO:
عام انتخابات 2024: کیا امریکہ پاکستان کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟وائس آف امریکہ یوتھ سروے: بلوچستان کے نوجوان فوج کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں؟عام تاثر کے برعکس نوجوانوں کی اکثریت کو انتخابات شفاف ہونے کی امید، فوج پر اعتمادکیا پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت واقعی فوج پر اعتماد کرتی ہے؟ نوجوانوں کے مطابق حکومت کی پہلی ترجیح کیا ہونی چاہیے؟اُن کے بقول نوجوان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ جنگ کا کسی بھی ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور اس کا نتیجہ دونوں طرف تباہی کی شکل میں ہی نکلے گا۔
ظفر جسپال کہتے ہیں کہ پاکستانی نوجوان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے اور وہاں اُن کے لیے مواقع ہو سکتے ہیں، اسی طرح بھارت کے نواجوانوں کے لیے پاکستان بھی ایک بڑی مارکیٹ ہے اور اُن کے لیے یہاں بھی مواقع ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت نے انتخابی مہم کے دوران کبھی بھارت کو اپنا ہدف نہیں بنایا، حالاں کہ بھارت میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آٹھ فروری کو رواں صدی کے پانچویں الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور اُنہیں یاد نہیں پڑتا کہ کسی بھی الیکشن میں کسی سیاسی جماعت کے رہنما نے بھارت کو للکارا ہو۔
ماہرین کہتے ہیں کہ بہتر تعلقات کی خواہش دونوں طرف ہی پائی جاتی ہے، لیکن خطے کے معروضی سیاسی حالات اور دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیاں بہتر تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔