پاکستان کے ہر پانچ میں سے تین نوجوانوں کی رائے ہے کہ سیاسی رہنما ان کے مسائل اور ترجیحات نہیں سمجھتے۔
لیکن سیاست دانوں کے بارے میں اس تاثر کے باوجود ملک کے لگ بھگ نصف نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں۔
نوجوانوں نے اس رائے کا اظہار وائس آف امریکہ کے ایک سروے میں کیا ہے جو ملٹی نیشنل ادارے اپسوس کے ذریعے کرایا گیا ہے۔
سروے میں 60 فی صد نوجوانوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ سیاست دان ان کے مسائل سے لاعلم ہیں اور انہیں نوجوانوں کی ترجیحات کا بھی علم نہیں۔
یہ سروے ایسے وقت کیا گیا ہے جب پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے سیاسی سرگرمیاں جاری ہیں اور ہر بڑی جماعت نوجوان ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش میں ہے۔
سروے کے مطابق شہری (55 فی صد) کے مقابلے میں دیہی نوجواںوں کی اکثریت (62 فی صد) یہ سمجھتی ہے کہ سیاسی رہنماؤں کو ان کے مسائل کا علم نہیں۔
مردوں (57 فی صد) کے مقابلے میں خواتین یہ رائے زیادہ رکھتی ہیں (63 فی صد) کہ سیاسی رہنما ان کے مسائل اور ترجیحات بالکل نہیں سمجھتے۔
کم عمر (18 سے 24 سال کی عمر) نوجوانوں میں یہ تاثر زیادہ ہے کہ سیاست دان ان کے مسائل سے لاعلم ہیں۔ اس ایج گروپ میں سیاست دانوں سے شاکی نوجوانوں کی شرح 64 فی صد ہے۔
نوجوان سیاست میں کتنے سرگرم؟
سروے کے مطابق پاکستان کے لگ بھگ 54 فی صد نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے حلقے کی سیاست اور وہاں سے انتخاب لڑنے والے امیدواروں کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتے ہیں۔ دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں میں مردوں کی شرح (57 فی صد) ہے جو خواتین (39 فی صد) کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
سروے میں شامل صرف 29 فی صد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ وہ کسی سیاسی جماعت سے باقاعدہ وابستہ ہیں اور سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں، ریلیوں اور مظاہروں وغیرہ میں شریک ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سروے کے مطابق پاکستان میں ٹیلی وژن پر سیاسی ٹاک شوز دیکھنے والے نوجوانوں کی شرح 29 فی صد ہے جب کہ یوٹیوب پر سیاسی پوڈ کاسٹ اور وی لاگ دیکھنے والے نوجوانوں کی شرح 26 فی صد ہے۔
سروے میں شامل 26 فی صد نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر ہونے والی سیاسی بحثوں میں شریک ہوتے ہیں۔
عام طور پر اخبارات میں شائع ہونے والے کالمز کو رائے سازی کے لیے اہم تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم صرف 19 فی صد نوجوان ہی کالم پڑھتے ہیں۔
'الیکٹیبلز کی وجہ سے نوجوان نظر انداز ہیں'
سروے کے ان نتائج پر سینئر صحافی اور کئی نجی ٹی وی چینلجز کے الیکشن سیلز کے نگران رہنے والے افتخار احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں نوجوانوں کا بڑا مسئلہ روزگار ہے۔ لیکن سیاسی جماعتوں کی اس پر عدم توجہ کی وجہ سے نوجوانوں اور سیاست دانوں کے درمیان دوری پائی جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے پاس نوجوانوں، مزدوروں اور کسانوں کے لیے کوئی پروگرام نہیں ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی یونین کونسل کی سطح پر تنظیم سازی نہیں اور نہ ہی وہ اس طرح کام کرتی ہیں جیسے دوسرے جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں نوجوان ووٹر نے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالا تھا۔ لیکن آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات سے متعلق ایسی کوئی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔
نوجوانوں کی عملی سیاست میں شرکت سے متعلق افتخار احمد کہتے ہیں کہ نوجوان سیاست پر تبصرے بہت کرتے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی رکنیت حاصل نہیں کرتے اور نچلی سطح پر ہونے والے سیاسی عمل میں حصہ نہیں لیتے۔
اُن کے بقول اگر نوجوان عملی سیاست سے دوری اختیار کر کے صرف تبصرے کریں گے تو سیاسی جماعتوں اور نوجوانوں کے درمیان دوری برقرار رہے گی۔
یوتھ انفلوئنسر اور سیاسی مبصر سید مزمل شاہ کے خیال میں پاپولزم کی سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں سیاسی جماعتوں کا منشور نہیں بلکہ بیانیہ اہم ہوتا ہے جس میں آپ کو اس بات کا جواب نہیں دینا ہوتا کہ آپ لوگوں کے مسائل کیسے حل کریں گے۔
مزمل شاہ کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں آزاد امیدوار اور الیکٹیبلز کی اہمیت ہوتی ہے اور ایسے حالات میں نوجوانوں میں یہ احساس پیدا ہونا کہ سیاسی قیادت ان کے مسائل نہیں سمجھتی، کوئی حیرت کی بات نہیں۔
انہوں نے کہا کہ نوجوانوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اس وقت تک فاصلہ برقرار رہے گا جب تک سیاسی جماعتوں کی قیادت مخصوص خاندانوں اور ایسے افراد تک محدود رہے گی جو انتخابی اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔