Your browser doesn’t support HTML5
پرائیویٹ نیوز چینلوں کی آمد سے پہلے محمود شام پاکستان میں میڈیا کا شاید سب سے بڑا نام تھا۔ وہ جنگ اخبار کے گروپ ایڈیٹر تھے۔ شام صاحب نے ساٹھ کی دہائی کے آغاز میں صحافت کا آغاز کیا۔ قندیل، نوائے وقت اور مساوات میں کام کیا۔ بچوں کے رسالے ٹوٹ بٹوٹ، معیار، اخبار جہاں اور اور جنگ کے ایڈیٹر رہے۔ بلامبالغہ درجنوں کتابیں تصنیف کر چکے ہیں جن میں شعری مجموعے، سفرنامے، انٹرویو اور کالموں کے مجموعے شامل ہیں۔ ان دنوں ایک جریدے اطراف کے ایڈیٹر ہیں اور جنگ میں کالم کا سلسلہ جاری ہے۔ چھ دہائیوں سے صحافت میں سرگرم ہونے کے باوجود آج بھی تازہ دم ہیں۔
پاکستان میں بہت سے لوگ میڈیا سنسرشپ کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن، شام صاحب نے دوسروں سے ذرا مختلف گفتگو کی۔ میں نے ان سے پہلا سوال یہی پوچھا تھا کہ کیا پاکستان میں میڈیا کو سنسرشپ کا سامنا ہے؟
شام صاحب نے کہا کہ صورتحال کو سنسرشپ نہیں کہنا چاہیے کیونکہ ہم تو آزادی سے لکھ رہے ہیں۔ یہ میڈیا کے اداروں کی خود کھڑی کی ہوئی مشکلات ہیں۔ میڈیا مالکان کی قومی اداروں سے جو بات چیت ہوتی ہے، اس کی روشنی میں انھوں نے اپنی کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں۔ وہ خود چیزیں روکتے ہیں، پرنٹ میں بھی اور الیکٹرونک میڈیا میں بھی۔ مارشل لا ادوار میں پریس ایڈوائس براہ راست آتی تھی۔ اخبارات اور رسالے لے کر وزارت اطلاعات میں جانا پڑتا تھا۔ ان کے افسر جانچتے تھے کہ کیا چیز چھپنی چاہیے اور کیا نہیں۔ اب اس طرح کا نظام نہیں۔
عام شہری اور ملٹری کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ سیاست دانوں اور جرنیلوں کا ہے۔ سیاست دان اپنی نااہلی اور کرپشن کی ذمے داری ملٹری پر ڈال دیتے ہیں کہ اس نے انھیں کام نہیں کرنے دیا۔ جرنیل جو کرتے ہیں، اس میں ساری فوج کا کردار نہیں ہوتا۔
آپ دیکھیں کہ بھارت میں پاکستان سے متعلق پالیسی پر سب ایک ہیں۔ حکومت بھی، فوج بھی، میڈیا بھی۔ انڈین میڈیا اس طرح کی بات نہیں کرتا کہ اس پر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے دباؤ ہے۔ وہاں خارجہ پالیسی جو بھی طے ہے، پاکستان پالیسی ہو یا کشمیر پالیسی، وہ سوچی سمجھی اور متفقہ ہے۔ ہمارے ہاں بھارت سے متعلق پالیسی پر اختلافات ہیں، کشمیر پالیسی پر بھی اختلافات ہیں۔
پاکستان میں بہت زیادہ نیوز چینل ہیں۔ پاکستان کو اتنے نیوز چینلوں کی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟ کیا ہماری صنعت اتنی ترقی کر رہی ہے کہ اتنے سارے چینل کو زندہ رکھ سکتی ہے؟ ہماری برآمدات بہت کم ہیں اور درآمدات زیادہ ہیں۔ کون اشتہار دے گا اور دے رہا ہے؟ یہ سب باتیں سوچنے والی ہیں۔
میں نے کہا، شام صاحب! اگر ہماری معیشت میں دم نہیں تو نئے نیوز چینل کیسے آرہے ہیں؟ پرانے نیوز چینل اور اخبارات بھی تنخواہیں نہیں دے پا رہے؟
شام صاحب نے کہا کہ میڈیا ورکر کی ملازمت کا تحفظ حکومت کی ذمے داری نہیں ہے۔ میڈیا اب بالکل آزاد ہے اور کاروبار کی طرح چل رہا ہے۔ اگر میڈیا مالکان خسارہ برداشت نہیں کرسکتے تو اس میدان میں آتے کیوں ہیں؟ اگر یہ نقصان کا سودا ہے اور حکومت یا ریاست کی طرف سے اگر سنسرشپ جیسی پابندیاں ہیں تو نئے چینل کیوں آ رہے ہیں؟ تین چار ماہ میں تین چار نئے چینل آچکے ہیں اور خبر ہے کہ مزید آئیں گے۔ جو آرہے ہیں وہ، کسی امید ہی میں آرہے ہیں۔
شام صاحب نے کہا کہ میڈیا کی صنعت میں سب سے بڑا مسئلہ تنخواہوں میں فرق ہے۔ اینکر پرسنز کی تنخواہیں بہت زیادہ ہوچکی ہیں۔ بول نے اپنے صدور اور سی ای او کو ایک کروڑ روپے تک تنخواہیں دیں۔ اس وقت بھی جو بڑے اینکر پرسنز ہیں، کوئی چالیس لاکھ لے رہا ہے اور کوئی ساٹھ لاکھ۔ اس سے معاشی عدم توازن پیدا ہو رہا ہے۔ اتنی بڑی تنخواہوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کسی اور صنعت میں اتنی زیادہ تنخواہیں نہیں ہیں۔ نہ حکومت میں، نہ فوج میں اور نہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں۔ صرف ایک ٹاک شو کرنے والوں کی تنخواہیں اتنی زیادہ ہیں اور جو بے چارے بارہ بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں، ان کی تنخواہیں بیس پچیس ہزار سے زیادہ نہیں۔ انھیں اگر تاخیر سے تنخواہیں ملتی ہیں ایسا ان بڑی تنخواہ والوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ میڈیا مالکان کو اینکر پرسنز کی تنخواہیں کم کرنی پڑیں گی، کیونکہ یہ بالکل غیر منطقی بنیاد پر ہیں۔ امریکا اور برطانیہ جیسے ملکوں میں بھی تنخواہوں میں اتنا بڑا فرق نہیں ہے۔
میں نے دریافت کیا کہ کیا اس کسادبازاری کی وجہ سے کچھ اخبارات اور نیوز چینل اپنا وجود کھو سکتے ہیں؟
شام صاحب نے کہا، جی ہاں۔ کچھ اخبارات اور چینل بند ہوجائیں گے۔ کافی ادارے مشکل میں ہیں۔ چار چار پانچ پانچ تنخواہوں کا فرق پڑ چکا ہے۔ جنگ گروپ سب سے بڑا ادارہ ہے۔ وہاں بھی تنخواہیں تین تین ماہ تاخیر کا شکار ہیں۔ وہاں بھی ملازمین کو فارغ کیا جارہا ہے۔ اگر انھوں نے حکومت پر انحصار کیا تھا کہ وہ انھیں اشتہارات دیتی رہے گی تو یہ غلط منصوبہ بندی تھی۔ نئی حکومت خود مسائل کا شکار ہے۔ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ پہلے کی طرح ان کو نوازے اور مبارک باد کے اشتہارات دے۔ بحریہ ٹاؤن والے بڑے بڑے اشتہارات دے کر کبھی کبھی انھیں بیل آؤٹ کر دیتے ہیں۔ اس کے بجائے میڈیا اداروں کی اپنی منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔ پاکستان میں جتنا کاروبار ممکن ہے، اس کی بنیاد پر معاشی منصوبہ بنانا چاہیے۔
میں نے سوال کیا کہ میڈیا اداروں کو خبریں، کالم اور انٹرویو روکنے کی ہدایت کون دیتا ہے؟
شام صاحب نے کہا کہ مجھے تو کسی نے نہیں کہا ابھی تک۔ دفتر کی انتظامیہ اگر کسی سے کہتی ہیں کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں تو وہ ادارے کا اندرونی معاملہ ہے۔ اسے لوگ باہر کیوں لے جاتے ہیں؟ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوتا تھا کہ کالم روکا گیا ہو تو اسے سوشل میڈیا پر ڈال دیا جائے۔
میں نے کہا کہ شام صاحب، پہلے سوشل میڈیا ہوتا ہی نہیں تھا۔
شام صاحب نے اپنی بات جاری رکھی کہ پہلے بڑے بڑے کالم نویس ہوتے تھے۔ وہ کہیں جاکر نہیں کہتے تھے کہ میرا کالم نہیں چھپا۔ وہ ایڈیٹوریل پالیسی کے مطابق تبدیلی کردیتے تھے اور اخبار چھاپ دیتا تھا۔ ہم نے بہت مشکل حالات میں اپنی بات کہی ہے۔ ضیا الحق مارشل لا سے زیادہ سفاک زمانہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس میں پری پبلی کیشن سنسرشپ تھی۔ اخبارات اور رسائل بند بھی ہوئے۔ صحافی گرفتار ہوئے۔ نئے لوگوں نے وہ زمانہ دیکھا ہی نہیں۔
شام صاحب نے ایک بار پھر کہا کہ میڈیا ادارے مالی مشکلات کا شکار اس لیے ہیں کہ معاشی عدم توازن ہے اور اس کی وجہ اینکر پرسنز کی بڑی بڑی تنخواہیں ہیں۔ مالی مشکلات سرکاری سنسرشپ یا کسی اور پابندی کی وجہ سے نہیں ہیں۔ یہ محض جواز ڈھونڈا جارہا ہے۔