پاکستان میں جب بھی سورج یا چاند گرہن ہوتا ہے عوامی دلچسپی اور عوام کی رائے سائنسی وجوہات یا توجیحات سے بالکل مختلف نظرآتی ہے۔ کہیں خوف ہوتا ہے تو کہیں توہمات بڑھ جاتی ہیں۔
کہیں اسے ڈھیرساری بیماریوں کا علاج تصور کیا جاتا ہے تو کہیں اس سے بچنے اور اسے نہ دیکھنے کے مشورے زبان زد عام ہونے لگتے ہیں۔خواتین اور خاص کر حاملہ خواتین کو تو چھری یا قینچی سے کچھ بھی کاٹنےتک سے روک دیا جاتا ہے۔
ان تمام باتوں اور چہ میگوئیوں کے باوجود چاند کو کھلی آنکھ سے دیکھنے کی جستجو ہر فرد کے دل میں مچلتی رہتی ہے ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہوا تو اس وقت چاند یا سورج کیسا دکھتا ہوگا؟ کیا تھا؟ اور اب کیا ہوگا؟
سولہ اور سترہ ستمبر کی درمیانی شب جب رواں سال کا تیسرا اور آخری چاند گرہن ہوا تو اسے پاکستان میں بھی دیکھا گیا۔چونکہ اس بار اسے دیکھنے کے لئے زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا اعلان کہیں نہیں ہوا تو لوگوں نے کھلی آنکھ سے افق پر گہن لگتے چاند کو دل بھر دیکھا۔
گہن کا آغاز رات 9 بجکر 55 منٹ پر شروع ہوا اوررات ایک بج کر 54 منٹ پر اس کا اختتام ہوا جبکہ 11 بج کر 55 منٹ پر یہ اپنے عروج پرتھا۔
محکمہ موسمیات کے کلائمٹ ڈیٹا پروسیسنگ سینٹر کے مطابق گہن کا کل دورانیہ تقریباً چار گھنٹوں پر مشتمل تھا اور مطلع صاف ہونے کی بنا پر اسے خیبر پختونخوا‘ بالائی پنجاب‘ پاکستان ک زیر انتظام آزاد کشمیر‘ سندھ‘ جنوبی پنجاب اور بلوچستان میںدل بھر دیکھا گیا۔
کراچی کے افق پر چاند کی پوزیشن کیسی تھی اسے اوپر دی گئی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے جو بظاہر ایک نظر آرہی ہے لیکن اس میں دو چاند ہیں ۔ ایک تصویر گرہن شروع ہونے سے پہلے کی ہے جبکہ دوسری تصویر اس وقت کی ہے جب چاند کو گرہن لگ چکا تھا۔ دونوں چاند بغور دیکھئے فرق صاف نظر آئے گا۔