کابل میں20 ٹن سےزیادہ ادویات اوراشیائے خوردونوش، نذرآتش کیوں کی گئیں؟

افغانستان میں جڑی بوٹیوں سے تیار شدہ ادویات کی ایک دوکان، فائل فوٹو

گزشتہ تین ماہ کے دوران کابل میں 20 ٹن سے زیادہ غیر معیاری ، ناقص اور ایکسپائر شدہ خوراک اور ادویات جمع کر کے جلا ئی گئیں ہیں۔ کابل کے شہری اس کے لئے تاجروں کے علاوہ طالبان قیادت کو بھی مورد الزام ٹھہراتے ہیں جو ان اشیا کی درآمد کے وقت اس جانب توجہ نہیں دیتے۔

محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بچوں کی بیماریوں کی وجہ غیر معیاری اور ناقص مصنوعات کا استعمال ہے۔

وائس آف امریکہ کے شمس ارین نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران کابل شہر کی دکانوں اور دواخانوں سے تقریباً 20 ٹن غیر معیاری اشیائے خوردونوش اور ادویات کو اکٹھا کیا گیا جو اب جلائی جا رہی ہیں۔

شہر کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ایک جانب غیر معیاری اشیائے خوردونوش کی خرید و فروخت اور دوسری طرف ناقص اور جعلی ادویات کی وجہ سے ان کی زندگی مشکل میں ہے۔

کابل کے رہنے والےذاکراللہ کہتےہیں"پہلے گولیوں کے ایک پیکٹ کے استعمال سے ہی افاقہ ہو جاتا تھا۔ لیکن اب اگر ہم تین پیکٹ بھی استعمال کریں تو اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔"

انہوں نے حکومت سے گزارش کی کہ کہ ان جعلی ادویات اور غیر معیاری مصنوعات کو روکے کیونکہ" یہ بذات خود زہر ہیں اور ہم انھیں استعمال کرتے ہیں۔ "

عجب گل اس کی ذمہ داری تاجروں کی منافع خوری کی حرص کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں،"تاجر اپنا پیسہ کمانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ جس سے ہمیں نقصان ہوتا ہے۔ لیکن حکومت کو اسے روکنا چاہیے۔ یہ ہمارے ساتھ ظلم ہے۔"

Your browser doesn’t support HTML5

افغانستان میں غربت بڑھی تو وہاں دہشت گردی قدم جمائے گی

افغانستان میں اگرچہ خوراک پر کنٹرول کا معاملہ زیادہ تر مقامی اداروں کی ذمہ داری ہے، تاہم خوراک اور ادویات کی نگرانی کے قومی محکمے کے حکام کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے انہوں نے نئے لوگوں کی خدمات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ فوڈ کنٹرول کے لیے ایک نائب مقرر کرنے کی تجویز دی ہے۔

نیشنل فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے عبدالباری عمر نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ادارے نے فوڈ سیفٹی کے لیے 250 سے 300 نئے لوگوں کی خدمات حاصل کی ہیں۔ اس کے لئے ایک فعال محکمہ قائم کرنے کے لیے اعلی حکام کو سفارشات بھی بھیجی ہیں۔

عبدالباری عمر نے امید ظاہر کی کہ ان سفارشات پر عمل درآمدکیا جائے گا۔

SEE ALSO: زلزلے سے متاثرایک لاکھ افغان بچوں کی زندگیاں خطرے میں: یونیسیف

دوسری جانب بعض ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچوں کی زیادہ تر بیماریوں کی وجہ غیر معیاری ادویات کا استعمال ہے۔ ان کے مطابق ناقص اور غیر صحت مند خوراک سے بچوں کی نشوونما پر برا اثر پڑتا ہے۔

بچوں کے امراض کے ماہر،ڈاکٹر عبدالحق قاضی زادہ کہتے ہیں،"میرے پاس جعلی ادویات اور غیر معیاری خوراک کی اشیاء کی وجہ سے بیمار بچے زیادہ آتے ہیں۔ جس کی وجہ ان میں بیماریوں کے خلاف مزاحمت کی کمی ہے۔"

ڈاکٹر عبدالحق قاضی زادہ کہتے ہیں کہ ان مصنوعات کے استعمال سے بچوں کی نشوونما پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

خطے کے بعض ممالک کے کارخانوں میں تیار ہونے والی غیر معیاری ادویات اور کھانے پینے کی اشیاء زیادہ تر افغانستان درآمد کی جاتی ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اس کاروبار میں تاجروں کے علاوہ اعلیٰ سرکاری افسران کا بھی بڑا کردار ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی روک تھام میں مشکلات کا سامنا ہے۔

شمس ارین وی او اے کی رپورٹ