دنیا کی طویل ترین آزمائشی پرواز سڈنی پہنچ گئی

فضائی کمپنی کانٹاس کی پرواز 16200 کلو میٹر کا فاصلہ 19 گھنٹوں اور 16منٹ میں طے کر کے نیویارک سے سڈنی پہنچی۔

آسٹریلیا کی ایئر لائن 'کانٹاس' نے بغیر کسی وقفے کے طویل ترین آزمائشی پرواز مکمل کر لی ہے۔ جس کا مقصد طویل پرواز کی وجہ سے جہاز میں سوار عملے اور مسافروں پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لینا تھا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق کانٹاس کی پرواز 'کیو ایف 7879' امریکی شہر نیو یارک سے آسٹریلوی شہر سڈنی تک کا 16200 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے اتوار کی صبح سڈنی پہنچی۔

اس پرواز نے 19 گھنٹوں اور 16 منٹ میں یہ فاصلہ طے کیا جب کہ جہاز میں 49 مسافر سوار تھے۔

یہ پرواز کانٹاس کی رواں سال کی جانے والی تین آزمائشی پروازوں میں سے ایک ہے۔ ایک اور آزمائشی پرواز لندن سے سڈنی روانہ ہوگی۔

ان آزمائشی پروازوں کا مقصد امریکہ اور برطانیہ سے آسٹریلیا کے لیے طویل پروازوں کا آغاز ہے۔ جس کے لیے فضائی کمپنی 'کانٹاس' یہ آزمائشی پروازیں چلا رہی ہے۔

اس طویل پرواز کے لیے استعمال ہونے والے جہاز میں دوبارہ تیل بھرنے سے بچنے کے لیے تیل کا زیادہ ذخیرہ موجود ہوتا ہے اور پرواز میں وزن کم رکھنے کے لیے صرف 49 مسافر سوار کیے گئے ہیں۔

کانٹاس کے چیف آپریٹنگ آفیسر (سی ای او) ایلن جوائس نے دنیا کی طویل ترین آزمائشی پرواز کی کامیابی کو ایک تاریخی دن قرار دیا ہے۔

کانٹاس کے چیف آپریٹنگ آفیسر (سی ای او) ایلن جوائس نے دنیا کی طویل ترین آزمائشی پرواز کی کامیابی کو ایک تاریخی دن قرار دیا ہے۔

سڈنی پہنچنے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایلن کا کہنا تھا کہ کانٹاس کی فلائٹ 'کیو ایف 7879' تین آزمائشی پروازوں میں سے پہلی پرواز ہے۔ جس میں پائلٹوں اور مسافروں کو طویل پرواز کی وجہ سے ہونے والی تھکاوٹ (جیٹ لیگ) سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔ اس بارے میں سفارشات مرتب کی جائیں گی۔

کانٹاس دو آسٹریلوی یونیورسٹیوں کے ساتھ تحقیق کررہی ہے کہ جب مسافر اور پرواز کا عملہ دو مختلف ٹائم زونز میں سفر کرتا ہے تو انہیں جیٹ لاگ کیسے متاثر کرتا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق پرواز کے آغاز میں مسافروں نے اپنی گھڑیاں سڈنی کے وقت کے مطابق کرلی تھیں اور انھیں مشرقی آسٹریلیا میں رات پڑنے تک جگائے رکھا گیا۔ تاکہ مسافروں کو جیٹ لیگ سے محفوظ رکھا جاسکے۔

چھ گھنٹوں بعد مسافروں کو کاربوہائیڈریٹس سے بھرپور کھانا پیش کیا گیا۔ جس کے بعد جہاز میں روشنی کم کردی گئی تا کہ وہ نیند کر سکیں۔

اس تجربے میں حصّہ لینے والی سڈنی یونیورسٹی کی پروفیسر میری کیرول کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات سے 'جیٹ لیگ' بالکل کم سے کم ہوگا۔

پرواز میں موجود چار پائلٹس آپس میں اپنی ذمہ داریاں بدلتے رہے۔ جن کی ہوشیاری پر بذریعہ آلات نظر رکھی جارہی تھی۔

اس طویل ترین پرواز پر آسٹریلوی پائلٹس اور بین الاقوامی پائلٹس ایسوسی ایشن نے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ اتنی طویل پروازوں کی وجہ سے کیا پائلٹس کو اتنا آرام مل سکے گا کہ وہ اپنی بہترین کارکردگی دے سکیں۔

یاد رہے کہ 'کانٹاس' کی طرف سے گزشتہ سال مغربی آسٹریلوی شہر پرتھ سے لندن تک 17 گھنٹوں کی طویل ترین پرواز کا آغاز بھی کیا گیا تھا۔