امریکہ کے سرجن جنرل نے منگل کو صحتِ عامہ سے متعلق اپنی تازہ ترین رپورٹ میں تنہائی کو صحت کے لیے انتہائی مضر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تنہائی صحت کے لیے اتنی ہی خطرناک ہے جتنا کہ روزانہ ایک درجن سگریٹ پینا، جس سے صحت کے شعبے کو سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
ڈاکٹر وویک مورتی نے اپنے دفتر سے جاری ہونے والی 81 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا ہے کہ تقریباً نصف امریکی بالغوں کا کہنا ہے کہ وہ تنہائی کے تجربے سے گزرے ہیں۔
ڈاکٹر مورتی نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’’ اب ہم جانتے ہیں کہ تنہائی ایک عام احساس ہے جس کا بہت سے لوگ تجربہ کرتے ہیں۔ یہ بھوک یا پیاس کی طرح کا احساس ہے‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ، ’’ امریکہ میں لاکھوں لوگ غیر واضح حالات میں جدوجہد کر رہے ہیں، اور یہ درست نہیں ہے۔ اسی لیے میں نے یہ ایڈوائزری جاری کی تاکہ اس جدوجہد کو سامنے لایا جا سکے جس کا تجربہ بہت زیادہ لوگ کر رہے ہیں‘‘۔
اس رپورٹ کا مقصد تنہائی کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے، لیکن اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے وفاقی فنڈنگ یا پروگرامنگ کو مختص کرنا نہیں۔
SEE ALSO: ساٹھ فیصد امریکی نوعمر لڑکیاں مایوسی اور نا امیدی کا شکار ہیں: تحقیقتحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ حالیہ عشروں میں اپنی عبادت گاہوں ، اپنی کمیونٹی کی تنظیموں اور حتیٰ کہ اپنے خاندان کے افراد سے رابطوں اور تعلق گھٹانے والے افراد میں تنہائی کے احساسات میں مستقل طور پر اضافہ ہو رہا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 60 برسوں کے دوران اکیلے زندگی گزارنے والے گھرانوں کی تعداد بڑھ کر دو گنا ہو گئی ہے۔
کرونا وبا کے پھیلاؤ نے اس بحران کی شدت میں مزید اضافہ کیا ہے کیونکہ اس عالمی وبا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اسکولوں اور کام کی جگہوں پر لوگوں کی آمد و رفت روکنا یا محدود کرنا پڑی اور لاکھوں امریکی اپنے رشتے داروں یا دوستوں سے دور الگ تھلگ زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔
امریکی سرجن جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نے دوستوں کے گروپوں کو نشانہ بنایا اور دوستوں کے ساتھ گزارے جانے والے وقت کو محدود کر دیا۔
رپورٹ کے مطابق 2020 میں امریکیوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ اوسطاً روزانہ تقریباً 20 منٹ گزارے، جب کہ دو عشرے قبل یہ دورانیہ تقریباً 60 منٹ تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر مورتی اپنی رپورٹ میں کہتے ہیں کہ تنہائی کی وبا نوجوانوں ، خاص طور 15 سے 24 سال کی عمر کے افراد پر زیادہ شدت سے اثر انداز ہو رہی ہے۔ عمر کے اس گروپ کے نوجوانوں نے بتایا کہ اس عرصے کے دوران دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کی سطح میں 70 فی صد کمی ہوئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تنہائی قبل از موت کے خطرے میں 30 فی صد اضافہ کر دیتی ہے اور ایسے افراد جن کے سماجی تعلقات اور رابطے کم ہوتے ہیں ، ان میں فالج اور دل کی بیماری میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق تنہائی میں رہنے والے افراد میں ڈپریشن، اضطراب اور دماغی امراض میں مبتلا ہونے کا امکان بڑھ جاتاہے۔ تاہم ڈاکٹر مورتی نے اپنی رپورٹ میں اس بارے میں اعداد و شمار فراہم نہیں کیے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ تنہائی کتنے لوگوں کی براہ راست یا بالواسطہ موت کا سبب بنی۔
سرجن جنرل نے کام کی جگہوں، اسکولوں، ٹیکنالوجی کمپنیوں، کمیونٹی تنظیموں، والدین اور دیگر لوگوں سے ایسی تبدیلیاں لانے کی اپیل کی ہے جس سے ملک میں روابط کو فروغ ملے۔ انہوں نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کمیونٹی گروپس میں شمولیت اختیار کریں اور دوستوں سے ملاقات کے دوران اپنے فون پر مصروف ہونے سے احتراز کریں۔ انہوں نے روزگار فراہم کرنے والوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ریموٹ کام سے متعلق اپنی پالیسیوں کے بارے احتیاط سے سوچ بچار کریں، اور صحت کے اداروں سے کہا ہے کہ وہ اپنے ڈاکٹروں کو تنہائی کے صحت پر مرتب ہونے والے خطرات کو پہچاننے کی تربیت فراہم کریں۔
SEE ALSO: امریکی اسکولوں میں اضطراب اور ذہنی دباؤ سے نمٹنے کی خصوصی تعلیمٹیکنالوجی کے پھیلاؤ نے تنہائی کے مسئلے میں تیزی سے اضافہ کیاہے۔ رپورٹ میں ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جو لوگ روزانہ دو گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں ان میں سماجی طور پر الگ تھلگ ہونے کے احساس کا امکان ان لوگوں کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہوتا ہے جو سوشل میڈیا پر روزانہ 30 منٹ سے کم صرف کرتے ہیں۔
مورتی نے کہا کہ سوشل میڈیا خاص طور پر تنہائی میں اضافہ کر رہا ہے۔ رپورٹ میں مشورہ دیا گیا ہے کہ ٹیکنالوجی کمپنیاں اپنے سوشل میڈیا کے حوالے سے بچوں کے تحفظ کو ملحوظ رکھیں۔
مورتی کا کہنا ہے کہ، ’’ اب جب کہ باہمی رابطوں کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپس کی بات چیت کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہم نے فرد سے فرد کے رابطوں میں بہت کچھ کھو دیا ہے۔ ہمیں اس بارے میں غور کرنا چاہیے کہ ایسی ٹیکنالوجی ڈیزائن کی جائے جو ہمارے تعلقات کو کمزور کرنے کی بجائے مضبوط کرے۔
(اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)