فٹ بال ورلڈکپ کو ختم ہوئے دو دن ہوچکے ہیں اور ارجنٹینا کے لیونل میسی بالآخر ورلڈ چیمپئین بن چکے ہیں۔ لیکن دنیا بھر میں فٹ بال کی ٹرافی دیے جانے سے پہلے قطر کے امیر شیخ تمیم بن الحماد الثانی کی جانب سے انہیں پہنائے جانے والے کالے جبے، یعنی ’بشت‘ یا چوغہ پر بحث ابھی بھی جاری ہے۔
سوشل میڈیا پر جہاں اس اقدام پر دنیا بھر میں تنقید و تشریح جاری ہے، وہیں عالمی اخبارات میں اس پر طرح طرح کے تبصرے کیے گئے ہیں۔
بشت آخر ہے کیا؟
بشت ایک کالے رنگ کا جبہ یا چوغہ یا گاؤن ہے جس پر سونے سے کڑھائی کی گئی ہوتی ہے۔ یوٹیوب پر ’’قطر ٹپس‘‘ نامی چینل میں اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ چوغہ خاص مواقع پر پہنا جاتا ہے۔ پہلا، شادی کے موقع پر، دوسرا سرکاری تقریبات میں حکام اسے پہنتے ہیں اور تیسرا خوشی کے مواقع پر، جیسے عید وغیرہ پر حکام اسے پہنتے ہیں۔
اس کے علاوہ ’آئی لو قطر‘ ڈاٹ نیٹ پر اس کے بارے میں صحافی وراندہ عبلیش نے لکھا کہ یہ ملک میں نوابوں اور شاہی حکام کی علامت ہے۔
ورلڈکپ میں میسی کو پہنائے جانے والے بشت پر دنیا بھر کے اخباروں میں بھی تبصرے کیے جا رہے ہیں۔
برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے سرخی لگائی کہ یہ ’’عجیب و غریب عمل جس کی وجہ سے ورلڈکپ کی تاریخ کا سب سے عظیم لمحہ تباہ ہوگیا۔‘‘ اخبار نے اب یہ سرخی اپنی ویب سائٹ سے ہٹالی ہے۔ فاکس سپورٹس نے اپنی سرخی میں اسے ’’بالکل بھیانک‘‘ قرار دیا تو ’یاہو سپورٹس’ میں اسے معیوب کہا گیا۔
بی بی سی کے گیری لائنکر نے ، جو سابق انگلش فٹ بالر بھی ہیں ، فائنل کی لائیو کوریج کے دوران کہا کہ ’’یہ بہت شرمناک بات ہے جیسے انہوں نے میسی اور اس کی ارجنٹینا کی شرٹ کو ڈھانپ دیا ہے۔‘‘
اس کے علاوہ نیویارک ٹائمز کے طارق پنجا نے ٹویٹ کیا کہ میسی کو بشت میں ملبوس دیکھنا بہت عجیب ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ’’قطر اس لمحے کو اپنے متعلق بنانا چاہتا تھا، جیسے یہ ارجنٹینا اور میسی کو تھا۔‘‘
Something a little strange about Messi being dressed in Bisht, that black cloak that the emir of Qatar dressed him in before lifting the World Cup. Qatar wants this to be its moment as much as it is Messi’s and Argentina’s. pic.twitter.com/S4Jk6zGRZv
— tariq panja (@tariqpanja) December 18, 2022
سوشل میڈیا پر معروف رسالے بزنس انسائڈر کے نیوز ایڈیٹر ول مارٹن نے لکھا کہ میسی کو وہ جبہ پہنانا بہت بھیانک تھا۔ اس سے اس ورلڈکپ کی تمام خامیاں ابھر کا نظر آتی ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے قطر کی سپریم کمیٹی فار ڈلوری اینڈ لیگیسی کے سیکریٹری جنرل حسن الذوادی نے بتایا کہ یہ لباس خوشیاں منانے کے وقت پہنا جاتا ہے اور یہ میسی کے لیے جشن کا موقع تھا۔
ان کے بقول ورلڈ کپ کی وجہ سے دنیا کو عرب اور مسلم ثقافت دکھانے کا موقع ملا۔ اس کا تعلق قطر سے نہیں تھا بلکہ یہ مقامی جشن سے متعلق اقدام تھا۔
SEE ALSO: فٹ بال ورلڈ کپ جیتنے کے بعد میسی کا 'یوٹرن'سوشل میڈیا پر بہت سے صحافی اور صارفین بشت پر کی گئی ’تنقید‘ پر تنقید کر رہے ہیں۔
ریسرچر اور صحافی اشوک سوئن نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ میسی کو بشت پہنانے پر تنازع اور تنقید سوائے اسلامو فوبیا کے کچھ نہیں۔
Controversy and criticism of Messi getting to wear a pure Gold etched ceremonial black ‘Bisht’in Qatar is nothing but Islamophobia! #Messi𓃵 #FIFAWorldCup
— Ashok Swain (@ashoswai) December 19, 2022
عالیہ چغتائی نے 1970 میں ورلڈکپ جیتنے کے بعد پیلے کی تصویر پوسٹ کی اور سوال اٹھایا کہ پیلے نے جیت کے بعد سومبریرو ٹوپی پہنی جو میکسیکو کی ثقافتی علامت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے ایک ارب افراد کو بشت کا علم ہے اور وہ اس کی اہمیت جانتے ہیں۔
@ManuelVeth Pele wore the sombrero in 1970 - was that an issue as well? Or is that acceptable since you know and understand that particular accessory? Billion plus of us on this side of the world know and understand the bisht. pic.twitter.com/kGJLbpX7uL
— Alia Chughtai (@AliaChughtai) December 19, 2022
سپورٹس رپورٹر نکی کراسبی نے میسی کو امیر قطر کی جانب سے بشت پہنانے پر لکھا کہ یہ عرب دنیا میں کسی بھی شخص کو دی جانے والی سب سے بڑی تعظیم ہے۔ ان کے بقول اس بات کو میسی بھی جانتے تھے، اور سٹیڈیم میں موجود لوگوں کو بھی اس کا علم تھا۔
The fact that one of the loudest cheers of the night came when Sheikh Tamim draped the Bisht on Messi’s shoulders tells you what it meant. This is the greatest honour you can bestow on a person in the Arab world. Messi knew it, the people in the stadium knew it. pic.twitter.com/oid9QjCTx2
— Nicky Crosby (@CrosbyNicky) December 19, 2022
عرب صحافی اور کالمسٹ ریم الحریمی نے لکھا کہ ہمیں تعصب اور قیاس آرائی کی بجائے اس خوبصورت اور بامعنی تصویر کو سمجھنا چاہئے۔ ان کے بقول کسی کو بشت پہنانا اس بات کی نشاندہی ہے کہ اس شخص کی کتنی اہمیت اور تعظیم ہے ہماری نظر میں۔
Instead of preconceived notions & judgmental views, turning this beautiful and meaningful photo into something that is not, read about the Arab bisht; its importance, and why/when it’s worn. Gifting someone a bisht, shows how significant/respectful they are, that’s Messi today.
— Reem Al-Harmi ¡Felicidades, Argentina! 🇦🇷 (@Reem_AlHarmi) December 18, 2022
دوسری جانب خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے رپورٹ کیا کہ میسی کو پہنائے جانے والے بشت کو بنانے والی قطری کمپنی کی چاندی ہوگئی ہے۔
خبر رساں ایجنسی کے مطابق اس روائیی بشت کی قیمت 2200 ڈالر تھی اور اسے قطر کے باشندے احمد السلیم کی خاندانی کمپنی نے بنایا تھا۔
سلیم کے بقول انہوں نے ورلڈکپ کا فائنل دوحہ کی سوق واقف مارکیٹ میں اپنے خاندان کی کپڑوں کی دکان سے کچھ فاصلے پر ایک کیفے میں دیکھا۔ اس سے پہلے ورلڈ کپ کے حکام ان سے دو بشت خرید کر لے گئے تھے۔ ایک قدرے کم قد کے شخص کے لیے، جو میسی کو پورا آتا تھا اور ایک لمبے قد کے فرد کے لیے جو فرانسیسی کپتان ہیوگو لوریز کو فٹ آتا تھا۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب انہوں نے قطر کے امیر کو یہ جبہ میسی کو پہناتے دیکھا تو وہ حیران رہ گئے۔ بقول ان کے ’’ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ کن کے لیے لیا جا رہا ہے۔‘‘
SEE ALSO: فیفا ورلڈکپ میں کامیابی، میسی کا رونالڈو سے موازنہ ہمیشہ کے لیے ختمسلیم نے اپنی کمپنی کا ٹیگ پہچان لیا اور اب وہ اس خوشی میں جشن منا رہے ہیں۔
السلیم سٹور جو قطر کے شاہی خاندان کے لیے بشت سپلائی کرتا ہے، روزانہ آٹھ سے دس بشت فروخت کرتا تھا۔ پیر کے روز، فائنل کے بعد ان کی فروخت بڑھ کر 150 تک پہنچ گئی ہے۔ خصوصاً میسی کو پہنائے جانے والے بشت کی فروخت بہت بڑھ گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ میری دکان سے باہر درجنوں افراد بشت خریدنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔
بقول ان کے ’’ان میں سے تقریباً سب ارجنٹینا کے شہری تھے۔‘‘
خبر رساں ادارے کے مطابق سلیم سے گفتگو کے دوران ارجنٹینا کے کئی مداح ان کی دکان میں داخل ہوئے اور ان میں سے سب نے ہی قطری امیر کے اس اقدام کی تعریف کی۔
ایک مداح ماریشیو گارشیا نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’’ہم اس منظر کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ یہ ایک بادشاہ کی جانب سے دوسرے بادشاہ کے لیے تحفہ تھا۔‘‘
اس خبر کے لیے کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا۔