وزیراعظم علی زیدان نے یہ بیان طرابلس میں امریکی اسپیشل فورسز کی کارروائی میں القاعدہ کے ایک سینیئر رکن انس اللیبی کی گرفتاری کے بعد دیا۔
لیبیا کے وزیر اعظم علی زیدان نے کہا ہے کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
یہ بات انھوں نے طرابلس میں امریکی اسپیشل فورسز کی کارروائی میں القاعدہ کے ایک سینیئر رکن کی گرفتاری کے بعد کہی۔
"امریکہ کے ساتھ تعلقات دوستی اور مثبت تعاون پر مبنی ہیں اور وہ بہت اچھے ہیں۔ امریکہ نے انقلاب کے دوران لیبیا کی بہت مدد کی اور تعلقات کسی ایک واقعے کی وجہ سے متاثر نہیں ہونے چاہیئں، یہاں تک کہ یہ کوئی حساس واقعہ ہی کیوں نہ ہو۔"
مسٹر زیدان نے اس بات پر زور دیا کہ لیبیا کے شہریوں پر لیبیا میں ہی مقدمے چلنے چاہیئں۔ "لیبیا اپنے بیٹوں کو حوالے نہیں کرتا، مجھے امید ہے کہ اس معاملے کو دونوں ملک دانشمندی سے اور دانشمندانہ انداز میں حل کریں گے۔"
اس سے قبل منگل کو لیبیا کی وزارت انصاف نے امریکی سفیر ڈیبورا جونز کو طلب کرکے ان سے امریکی اسپیشل فورسز کی کارروائی پر استفسار کیا تھا۔ حکومت پہلے ہی ابو انس اللیبی کے خلاف کارروائی کو "اغوا" قرار دیتے ہوئے وضاحت طلب کر چکی ہے۔
امریکی فورسز نے اللیبی کو ہفتے کے روز طرابلس سے اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ اپنی گاڑی کھڑی کر رہے تھے۔ انھیں ایک امریکی بحری جہاز پر تفتیش کے لیے لے جایا گیا۔
امریکی صدر براک اوباما نے مشتبہ دہشت گرد اللیبی کو پکڑنے پر امریکی فوج کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ طویل عرصے سے روپوش ملزم کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
اوائل ہفتہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس گرفتاری کا دفاع کرتے ہوئے اسے "قانونی اور مناسب" اقدام قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ لیبیا کی حکومت کی شکایت بلاجواز ہے اور اللیبی کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
امریکہ کی ایک عدالت نے 2000ء میں اللیبی کو 1998ء میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارتخانوں پر بم حملے کی مبینہ منصوبہ بندی میں ملوث قرار دیا تھا۔ وفاقی تفتیشی ادارے 'ایف بی آئی' نے اس کی گرفتاری میں مدد دینے کے لیے پچاس لاکھ امریکی ڈالر کا انعام بھی مقرر کر رکھا تھا۔
یہ بات انھوں نے طرابلس میں امریکی اسپیشل فورسز کی کارروائی میں القاعدہ کے ایک سینیئر رکن کی گرفتاری کے بعد کہی۔
"امریکہ کے ساتھ تعلقات دوستی اور مثبت تعاون پر مبنی ہیں اور وہ بہت اچھے ہیں۔ امریکہ نے انقلاب کے دوران لیبیا کی بہت مدد کی اور تعلقات کسی ایک واقعے کی وجہ سے متاثر نہیں ہونے چاہیئں، یہاں تک کہ یہ کوئی حساس واقعہ ہی کیوں نہ ہو۔"
مسٹر زیدان نے اس بات پر زور دیا کہ لیبیا کے شہریوں پر لیبیا میں ہی مقدمے چلنے چاہیئں۔ "لیبیا اپنے بیٹوں کو حوالے نہیں کرتا، مجھے امید ہے کہ اس معاملے کو دونوں ملک دانشمندی سے اور دانشمندانہ انداز میں حل کریں گے۔"
اس سے قبل منگل کو لیبیا کی وزارت انصاف نے امریکی سفیر ڈیبورا جونز کو طلب کرکے ان سے امریکی اسپیشل فورسز کی کارروائی پر استفسار کیا تھا۔ حکومت پہلے ہی ابو انس اللیبی کے خلاف کارروائی کو "اغوا" قرار دیتے ہوئے وضاحت طلب کر چکی ہے۔
امریکی فورسز نے اللیبی کو ہفتے کے روز طرابلس سے اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ اپنی گاڑی کھڑی کر رہے تھے۔ انھیں ایک امریکی بحری جہاز پر تفتیش کے لیے لے جایا گیا۔
امریکی صدر براک اوباما نے مشتبہ دہشت گرد اللیبی کو پکڑنے پر امریکی فوج کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ طویل عرصے سے روپوش ملزم کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
اوائل ہفتہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس گرفتاری کا دفاع کرتے ہوئے اسے "قانونی اور مناسب" اقدام قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ لیبیا کی حکومت کی شکایت بلاجواز ہے اور اللیبی کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
امریکہ کی ایک عدالت نے 2000ء میں اللیبی کو 1998ء میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارتخانوں پر بم حملے کی مبینہ منصوبہ بندی میں ملوث قرار دیا تھا۔ وفاقی تفتیشی ادارے 'ایف بی آئی' نے اس کی گرفتاری میں مدد دینے کے لیے پچاس لاکھ امریکی ڈالر کا انعام بھی مقرر کر رکھا تھا۔