لیبیا کی بغاوت کا تیل کی ترسیل پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا: تجزیہ کار

لیبیا کی بغاوت کا تیل کی ترسیل پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا: تجزیہ کار

روس کے ساتھ ساتھ چین بھی عرب دنیا میں جاری جمہوریت نواز حکومت مخالف لہر سے خائف ہے اور دونوں ممالک مغربی ملکوں کی جانب سے اقوام متحدہ کے دیے گئے اختیارات سے مبینہ تجاوز پر نکتہ چیں بھی ہیں۔ تاہم کاروبار بظاہر ایک مختلف معاملہ ہے

لیبیا میں جہاں شہروں پر قبضے اور ملک کے سیاسی مستقبل کے حوالےسے باغیوں اور حکومت نواز فورسز کے درمیان لڑائی جاری ہے، وہاں لیبیا سے نکلنے والا تیل بھی تنازعے کا ایک اہم عنصر بن گیا ہے ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لیبیا میں غیر ملکی مداخلت کی وجہ بھی تیل ہی ہے۔
ویسے تو تیل کی عالمی منڈی میں لیبیا کا حصہ بہت تھوڑا ہے، لیکن توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باوجود، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لیبیا کی بغاوت کا تیل کی ترسیل پر ایسا کوئی اثر نہیں پڑا جسے دوسرے ملکوں کے تیل کی پیداوارسے پورا نہ کیا جا سکے۔

خطرات کا تجزیہ کرنے والی ایک فرم، میناس کے ڈائریکٹرچالز گرڈن کے خیال میں لیبیا میں غیر ملکی مداخلت کی وجہ حقیقت میں انسانی ہمدردی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ، اُس کے بعد، خطے میں لیبیا کے تیل میں علاقائی دلچسپی ہے۔
لیکن اس کے علاوہ بھی اس کا غیر معمولی خریدار بیجنگ ہے۔ روس کے ساتھ ساتھ چین بھی عرب دنیا میں رونما ہونےوالی جمہوریت نواز حکومت مخالف لہر سےخائف ہے۔ اور دونوں ممالک مغربی ملکوں کی جانب سے اقوام متحدہ کے دیے گئے اختیارات سےتجاوز پر نکتہ چیں بھی ہیں۔ تاہم کاروبار بظاہر ایک مختلف معاملہ ہے۔

گورڈن کے بقول: ’ہم سمجھتے ہیں کہ چین اور اٹلی رقم سے بھرے سوٹ کیسوں کیساتھ خام تیل خریدنے کیلئے تبروک میں موجود ہیں۔ میرے خیال میں چونکہ تیل ہی اپوزیشن کیلئے واحد ذریعہ آمدن ہے اسلئے قذافی حکومت تبروک تک تیل کی رسائی کو روک رہی ہے۔‘
لیبیا کے متعدد تیل کے کنویں، ریفائنریاں اور ٹرمینل ملک کےمشرقی علاقہ میں ہیں جو اس وقت باغیوں کے قبضے میں ہے۔ جبکہ باغی حکومت کچھ تیل بیچنے میں کامیاب رہی ہے، اسکی وزارت تیل کے سربراہ کا کہنا ہے کہ تیل کی ترسیل ابھی روک لی گئی ہے۔

باغیوں کے قبضے میں سرکاری تیل کی ایک کمپنی اگوکو کے مشیر یوسف رحیم شریف کا کہنا ہے کہ لیبیا کی حکومت نے ان ممالک کیلئے ترجیحی سلوک کا وعدہ کیا جو اسکے مقصد کی حمایت کرتے ہیں۔ شریف اشارتاً بتا رہے ہیں کہ باغیوں کی جانب سے بھی ترجیحی سلوک کی گنجائش موجود ہے۔ مگر کیا اسکی قانونی حیثیت ہے۔ باوجود کہ اگوکو کے امور باغی چلا رہے ہیں، وہ اب بھی سرکار کا ہی حصہ ہے اور اسلئے وہ اقوام متحدہ، امریکہ اور یورپی یونین کی تعزیرات کے تحت ہی آتا ہے۔
گورڈن کے الفاظ میں: ’میرے خیال میں جہاں تک اسکی قانونی حیثیت کا تعلق ہے تو یہ کہیں درمیان میں معلق ہے۔ تاہم اس وقت میرے خیال میں اقوام متحدہ دونوں فریقوں کی جانب سے تیل کی فروخت پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔‘

سنہ1990میں عراق میں تیل کی فروخت پر اقوام متحدہ اسکینڈل کا شکار ہوئی تھی، اور یوں لگتا ہے کہ وہ دوبارہ لیبیا میں ایسے کسی بھی اسکینڈل میں ملوث ہونا نہیں چاہتی۔