لیبیا کی صورت حال اور صدر اوباما کا سیاسی مستقبل

لیبیا کی صورت حال اور صدر اوباما کا سیاسی مستقبل

کیا لیبیا میں جاری حکومت مخالف لڑائی خانہ جنگی ہے ، اس کا اندرونی معاملہ ہے یا قیام جمہوریت کی حقیقی جدو جہد ؟ واشنگٹن میں اس لڑائی کے مختلف پہلووں پر بحث تو جاری ہے ہی ، لیکن اب اس میں لیبیا کے خلاف امریکی فوجی کارروائی کے اخراجات اور کانگریس کی رائے لئے بغیر لیبیا پر کئے گئے فضائی حملوں سے صدر اوباما کے سیاسی مستقبل پر اثرات کے مختلف پہلووں کا جائزہ بھی شامل ہو گیا ہے ، جب کہ امریکہ کے سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے اس مہینے کے شروع میں ہی خبردار کر دیا تھا کہ نو فلائی زون کے قیام کا مطلب لیبیا پر حملہ ہی ہوگا۔

لیبیا پرامریکہ ،برطانیہ اور فرانس کے فضائی حملوں کے فوری اور طویل مدتی مقاصد کے بارے میں واشنگٹن میں مختلف آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ جن میں سے ایک رائے بیرونی امداد سے طاقت کا توازن تبدیل کرنے کا الزام بھی ہے ۔

امریکی تھینک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے اسکالر گرائم بینر مین کہتے ہیں کہ عالمی برادری اپنے آپ کو ایک ملک کے اندرونی معاملے میں ملوث کر رہی ہے اور ایسا کرنا ہمیشہ خطرناک نتائج کا حامل بنتا رہا ہے ، خاص طور پر جب قذافی کو لیبیاکے عوام کے ایک طبقے کی حمایت حاصل ہے ۔ اور خصوصا بن غازی کےاردگردکے علاقے میں ، جہاں لیبیا کی29 فیصدآباد ی رہتی ہے ۔ ان میں سے آبادی کے کچھ طبقے اب بھی قذافی کے حامی ہیں، اور ہم نہیں جانتے کہ قذافی کو دراصل کتنی حمایت حاصل ہے ۔

امریکہ اور اس کے دو اتحادی ملکوں کی فوجی قیادت کی جانب سے معمر قذافی کا خاص طور پر نشانہ نہ بنانے کی بات دوہرائے جانے کے باوجود ماہرین کو خدشہ ہے کہ لیبیا پر حملوں میں معمر قذافی کولیٹرل ڈیمیج قرار دیئے جا سکتے ہیں ۔ مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے گریم بینرمین کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے لیبیا پر حملے کے بارے میں واشنگٹن میں اتفاق رائے موجود نہیں ۔

ان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں بہت سے لوگ لیبیا پر حملوں کی سخت مخالفت کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی آئین کے مطابق کانگریس کی منظوری کے بغیر فوج کسی کارروائی میں حصہ نہیں لے سکتی۔ اور اوباما انتظامیہ کے پاس اقوام متحدہ کی منظوری لینے کا وقت تھا مگر اپنی کانگریس میں اس معاملے کو زیر بحث لانے کا نہیں۔ اگر لیبیا کی صورتحال طول پکڑتی ہے تو اوباما انتظامیہ کے لئے اندرون ملک کئی سیاسی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں ۔

امریکی صدر اوباما نے جو چلی کے دورے کے دوران لیبیا کے بارے میں کہا ہے کہ حقیقی جمہوریت اندر سے پھوٹتی ہے۔

لیبیا پر نو فلائی زون کے قیام کی منظوری اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں دی گئی تھی ۔ لیکن اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک کے مطابق لیبیا میں خوراک کی قلت پیدا ہو رہی ہے اور لڑائی کی وجہ سے لوگوں تک انسانی بنیادوں پر خوراک پہنچانا مشکل ہو رہا ہے ۔ لیبیا پر امریکہ، اس کے اتحادیوں کے فضائی حملوں سے جہاں قذافی حکومت کے خلاف متحارب گروپوں میں بہت جوش و خروش پایا جاتا ہے وہاں قذافی حکومت کے حامی سخت ناراض دکھائی دیتے ہیں

چین نےلیبیا کے خلاف فضائی حملے فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور نیٹو اتحاد میں شامل ترکی اور جرمنی بھی ان حملوں کے بارے میں تحفظات کا شکار ہیں ۔اور صدر اوباما نے لیبیا کے خلاف فضائی آپریشن میں امریکہ کا کردار بتدریج کم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ آپریشن کے اگلے مرحلے میں کینیڈا اور بیلجئیم کی فضائیہ لیبیا کے جنوب اور مغرب میں نو فلائی زون کے قیام میں مدد کریں گی ۔

فارن پالیسی میگزین کے جاش روگن کہتے ہیں کہ منصوبہ یہ ہے کہ ہتھیاروں کی درآمد پر پابندی عائد کی جائے ، نو فلائی زون اور نو ڈرائیو زون قائم کیا جائے ، لیکن اس میں حکومت اور فوج پر بھرپور حملے شامل نہ ہوں ۔

لیکن واشنگٹن میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ لیبیا کی صورتحال طول پکڑ ے گی ، جس کا مطلب لیبیا کے اندر طاقت کاتوازن دو حصوں میں بٹ سکتا ہے ۔ اور اگر ایسا ہوا تو نو فلائی زون قائم کر کے بھی لیبیا میں جاری لڑائی کے کسی فریق کی واضح کامیابی کا امکان نظر نہیں آتا ۔ماہرین کاخیال ہے کہ عالمی برادری کو لیبیا میں ایک طویل وابستگی کے لئے تیاررہنا چاہئے۔