لیبیا: عبوری افواج کا قذافی کے حامی قصبہ پر بڑا حملہ

لیبیا: عبوری افواج کا قذافی کے حامی قصبہ پر بڑا حملہ

لیبیا کی عبوری حکومت کی افواج سابق حکمران معمر قذافی کے حامیوں کے قبضے میں موجود بچے کچھے قصبات کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اپنے حملوں میں شدت لے آئی ہیں اور فورسز نے نخلستانی قصبہ بنی ولید پر بڑا حملہ کیا ہے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ بنی ولید کا قصبہ جمعہ کو سارا دن دھماکوں اور فائرنگ کی آوازوں سے گونجتا رہا جہاں 'عبوری قومی کونسل' کے جنگجوؤں کو قذافی کے حامیوں کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

بنی ولید پر حملے سے ایک روز قبل انقلابی افواج کے ہزاروں جنگجوؤں نے قذافی کے آبائی قصبہ سرت کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے شہر کے مرکز کی جانب پیش قدمی کی تھی۔

عبوری انتظامیہ کے فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے جنگجوؤں کو سرت میں قذافی کے حامی فوجی دستوں اور نشانہ بازوں کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات کے مطابق شہر میں لڑائی کا سلسلہ جمعہ کو بھی جاری رہا۔

دریں اثناء ترکی کے وزیرِاعظم رجب طیب اردوان عرب ممالک کے دورے کے دوسرے مرحلے میں لیبیا کے دارالحکومت طرابلس پہنچ گئے ہیں۔ ان کے دورے کا مقصد لیبیا کی نئی اور ناتجربہ کار حکومت کے لیے ترکی کی حمایت کا اظہار کرنا ہے۔

لیبیا کی عبوری انتظامیہ کے سربراہ مصطفیٰ عبدالجلیل نے جمعہ کو طرابلس کے ہوائی اڈے پر ترک وزیرِاعظم کا استقبال کیا۔

اس سے قبل جمعرات کو لیبیا کے عوام نے برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون اور فرانس کے صدر نکولس سرکوزی کا طرابلس اور مشرقی شہر بن غازی پہنچنے پر پرجوش استقبال کیا تھا۔

دونوں رہنماؤں نے اپنے دورے کے دوران اعلان کیا تھا کہ ان کی جانب سے جمعہ کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے ایک قرارداد پیش کی جارہی ہے جس میں لیبیا میں عالمی ادارے کے مشن کا قیام، لیبیائی حکومت کے بیرونِ ملک موجود منجمد اثاثوں کی بحالی، مسافر پروازوں کے لیے 'نو-فلائی زون' کے خاتمے اور لیبیا کو اسلحہ کی فراہمی پر عائد پابندی کے خاتمے کی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔

دونوں رہنماؤں نے لیبیا کی عبوری انتظامیہ کو ملک بھر میں اپنا اقتدار مستحکم کرنے اور معمر قذافی اور ان کے قریبی حلقے میں شامل افراد کی تلاش میں مدد فراہم کرنے کا یقین دلایا تھا۔

دونوں یورپی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ لیبیا میں نیٹو کی فوجی کارروائی اس وقت تک جاری رکھی جائے گی جب تک اس کی ضرورت ہے۔

طرابلس میں خطاب کرتے ہوئے برطانوی وزیرِاعظم نے معمر قذافی اور ان کے حامیوں پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی جدوجہد ترک کردیں۔ فرانس کے صدر نکولس سرکوزی کا کہنا تھا کہ وہ فرانس کی نو آبادی رہنے والے پڑوسی ملک نائیجر کی حکومت پر زور دیں گے کہ وہ حالیہ عرصہ کے دوران ملک میں داخل ہونے والے قذافی انتظامیہ کے اہلکاروں کو حراست میں لے۔

برطانیہ اور فرانس نے لیبیا کے عام شہریوں کی حفاظت کی غرض سے معمر قذافی کی افواج کو نشانہ بنانے کے لیے نیٹو کی فوجی کارروائی کی شدومد سے حمایت کی تھی جبکہ فرانس 'عبوری قومی کونسل' کو لیبیا کی قانونی حکومت تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا۔