تارکین وطن سے متعلق بین الاقوامی ادارے آئی او ایم نے کہا ہے کہ دستاویزات نہ رکھنے والے تارکین وطن کے بارے میں لیبیا کے حکام کی بظاہر پالیسی میں ایک تبدیلی کے بعد ادارے کو خدشہ ہے کہ یہ اخراج جاری رہے گا۔
واشنگٹن —
تارکین وطن سےمتعلق بین الاقوامی ادارے آئی او ایم نے لیبیا سے نکالےجانےوالے چاڈ کے تارکینِ وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ جنیوا میں قائم آئی او ایم نے خبر دی ہے کہ جنوری سے اب تک چاڈ کے ایک ہزار سے زیادہ تارکین وطن چاڈ کے شمالی شہرفایا پہنچ چکےہیں ۔
تارکین وطن کے امور سے متعلق بین الاقوامی ادارے نے خبر دی ہے کہ چاڈ کے تارکین وطن انتہائی خراب ذہنی اورجسمانی حالت میں چاڈ کے شہر فایاپہنچے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اکثریت نے صحرا میں تقریباً دو ہفتے تک بغیر خوراک اورپانی یا دن کے وقت شدید دھوپ اور رات کے وقت شدیدسردی کے عالم میں سفر کیا ۔
آئی او ایم کے ترجمان امبے اومارے امبے کا کہنا ہے کہ 180 تارکین وطن کا ایک گروپ حال ہی میں انتہائی ڈی ہائیڈریٹیڈ حالت میں آئی او ایم کےفایامیں قائم ٹرانزٹ سنٹر پہنچا۔ ترجمان نے بتایا کہ ان میں سے ایک وہاں پہنچتے ہی دم توڑ بیٹھا اور دیگر دو افراد سڑک پر ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ لیبیا کے حکام نے تارکین وطن کو اس لیے ملک چھوڑنےکےلیےکہاہے کہ ان کے پاس وہاں رہنے اورکام کرنےکےلئے درست دستاویزات کی کمی تھی۔ لیکن مسٹر امبےنے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بہت سے تارکین وطن کا خیال ہے کہ اس اخراج کے پس پشت اور بھی وجوہات کار فرما ہیں ۔
مسٹر امبے کے الفاظ، ’’تارکین وطن نے ہمیں بتایا ہے کہ لیبیا کے لوگوں کو شبہ ہے کہ وہ فوجی ہیں ۔ اس پر لیبیا کی جنگ کے آغاز سے کئی بار تصدیق ہو چکی ہے ۔حز ب ِاختلاف ،جو اب لیبیا کی نئی حکومت ہے، میڈیا میں کہہ رہی تھی کہ افریقی سب صحارا کے افریقی کرنل قذافی کی سابقہ حکومت کی مدد کر رہےہیں۔‘‘
لیبیا میں دو سال قبل اس وقت جب قذافی کا تختہ الٹا گیا توچاڈ کےتقریباً تین لاکھ تارکینِ وطن رہ رہے تھے ۔ چاڈ حکومت کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے لگ بھگ نصف تعداد وطن واپس آ چکی ہے۔ آئی او ایم کا کہنا ہے کہ اس کا خیال ہے کہ اس وقت لیبیا میں چاڈ کے کم از کم ایک لاکھ باشندے باقی ہیں ۔
مسٹر امبے کہتے ہیں کہ چاڈ کے جن باشندوں کو چُن چُن کر نکالا جا رہا ہے انہیں حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے جہاں وہ ممکنہ طور پر ایک سے دو سال تک رہتے ہیں ۔ ترجمان کا کہناہے کہ آئی او ایم کے ذرائع نے خبر دی ہے کہ ان حراستی مراکز کے تقریباً اسی فیصد کا انتظام ملیشیاؤں کے پاس ہے جن کے لیبیا کی مرکزی حکومت کےساتھ کوئی سرکاری رابطے نہیں ہیں۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں پہنچنے والے تارکین وطن سمیت بہت سے تارکین وطن نے ان حراستی مراکز میں نا مناسب برتاؤ کی شکایت کی ہے ۔ان کے مطابق، ’’ اس گروپ کے لوگوں نے ہمیں مار پیٹ ، بہت زیادہ مار پیٹ اور بد زبانی کے سلوک کے بارے میں بتایا ہے مثلاً یہ کہ انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ گرے ہوئے انسان ہیں، بندر ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور انہیں خوراک ، پانی اور دوا دینے سے انکار کیاجاتا ہے خاص طور پر دوائیں ۔ تارکین وطن نےہمیں بتایا ہے کہ ان کے کچھ ساتھی حقیقتاً ان حراستی مراکز میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔‘‘
تارکین وطن سے متعلق بین الاقوامی ادارے آئی او ایم نے کہا ہے کہ دستاویزات نہ رکھنے والے تارکین وطن کے بارے میں لیبیا کے حکام کی بظاہر پالیسی میں ایک تبدیلی کے بعد ادارے کو خدشہ ہے کہ یہ اخراج جاری رہے گا ۔ آئی او ایم لیبیا سے اپیل کر رہا ہے کہ وہ تارکین وطن کے ساتھ انسانیت کا برتاؤ کریں۔ ادارے نے چاڈ کے کمزور تارکین وطن کی زندگی بچانے میں معاونت کرنے کے لیے ابتدائی طور پر پانچ لاکھ ڈالر کی مدد کی اپیل بھی کی ہے ۔
تارکین وطن کے امور سے متعلق بین الاقوامی ادارے نے خبر دی ہے کہ چاڈ کے تارکین وطن انتہائی خراب ذہنی اورجسمانی حالت میں چاڈ کے شہر فایاپہنچے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اکثریت نے صحرا میں تقریباً دو ہفتے تک بغیر خوراک اورپانی یا دن کے وقت شدید دھوپ اور رات کے وقت شدیدسردی کے عالم میں سفر کیا ۔
آئی او ایم کے ترجمان امبے اومارے امبے کا کہنا ہے کہ 180 تارکین وطن کا ایک گروپ حال ہی میں انتہائی ڈی ہائیڈریٹیڈ حالت میں آئی او ایم کےفایامیں قائم ٹرانزٹ سنٹر پہنچا۔ ترجمان نے بتایا کہ ان میں سے ایک وہاں پہنچتے ہی دم توڑ بیٹھا اور دیگر دو افراد سڑک پر ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ لیبیا کے حکام نے تارکین وطن کو اس لیے ملک چھوڑنےکےلیےکہاہے کہ ان کے پاس وہاں رہنے اورکام کرنےکےلئے درست دستاویزات کی کمی تھی۔ لیکن مسٹر امبےنے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بہت سے تارکین وطن کا خیال ہے کہ اس اخراج کے پس پشت اور بھی وجوہات کار فرما ہیں ۔
مسٹر امبے کے الفاظ، ’’تارکین وطن نے ہمیں بتایا ہے کہ لیبیا کے لوگوں کو شبہ ہے کہ وہ فوجی ہیں ۔ اس پر لیبیا کی جنگ کے آغاز سے کئی بار تصدیق ہو چکی ہے ۔حز ب ِاختلاف ،جو اب لیبیا کی نئی حکومت ہے، میڈیا میں کہہ رہی تھی کہ افریقی سب صحارا کے افریقی کرنل قذافی کی سابقہ حکومت کی مدد کر رہےہیں۔‘‘
لیبیا میں دو سال قبل اس وقت جب قذافی کا تختہ الٹا گیا توچاڈ کےتقریباً تین لاکھ تارکینِ وطن رہ رہے تھے ۔ چاڈ حکومت کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے لگ بھگ نصف تعداد وطن واپس آ چکی ہے۔ آئی او ایم کا کہنا ہے کہ اس کا خیال ہے کہ اس وقت لیبیا میں چاڈ کے کم از کم ایک لاکھ باشندے باقی ہیں ۔
مسٹر امبے کہتے ہیں کہ چاڈ کے جن باشندوں کو چُن چُن کر نکالا جا رہا ہے انہیں حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے جہاں وہ ممکنہ طور پر ایک سے دو سال تک رہتے ہیں ۔ ترجمان کا کہناہے کہ آئی او ایم کے ذرائع نے خبر دی ہے کہ ان حراستی مراکز کے تقریباً اسی فیصد کا انتظام ملیشیاؤں کے پاس ہے جن کے لیبیا کی مرکزی حکومت کےساتھ کوئی سرکاری رابطے نہیں ہیں۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں پہنچنے والے تارکین وطن سمیت بہت سے تارکین وطن نے ان حراستی مراکز میں نا مناسب برتاؤ کی شکایت کی ہے ۔ان کے مطابق، ’’ اس گروپ کے لوگوں نے ہمیں مار پیٹ ، بہت زیادہ مار پیٹ اور بد زبانی کے سلوک کے بارے میں بتایا ہے مثلاً یہ کہ انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ گرے ہوئے انسان ہیں، بندر ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور انہیں خوراک ، پانی اور دوا دینے سے انکار کیاجاتا ہے خاص طور پر دوائیں ۔ تارکین وطن نےہمیں بتایا ہے کہ ان کے کچھ ساتھی حقیقتاً ان حراستی مراکز میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔‘‘
تارکین وطن سے متعلق بین الاقوامی ادارے آئی او ایم نے کہا ہے کہ دستاویزات نہ رکھنے والے تارکین وطن کے بارے میں لیبیا کے حکام کی بظاہر پالیسی میں ایک تبدیلی کے بعد ادارے کو خدشہ ہے کہ یہ اخراج جاری رہے گا ۔ آئی او ایم لیبیا سے اپیل کر رہا ہے کہ وہ تارکین وطن کے ساتھ انسانیت کا برتاؤ کریں۔ ادارے نے چاڈ کے کمزور تارکین وطن کی زندگی بچانے میں معاونت کرنے کے لیے ابتدائی طور پر پانچ لاکھ ڈالر کی مدد کی اپیل بھی کی ہے ۔