لیبیا کی عبوری حکومت نے ملک کے سابق حکمران معمر قذافی کے دور میں خدمات انجام دینے والے ایک سابق فوجی افسر کو ملکی افواج کا نیا سربراہ نامزد کردیا ہے۔
نئے فوجی سربراہ کی تقرری ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب دارالحکومت طرابلس میں مختلف مسلح گروہوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے تناظر میں لیبیا کو درپیش سلامتی کے خطرات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
جھڑپیں طرابلس کی ایک مقامی ملیشیا اور دارالحکومت سے 200 کلومیٹر مشرق میں واقع شہر مصراتہ کے ایک مسلح گروہ کے درمیان منگل کو شروع ہوئیں۔
جھڑپوں کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ لڑائی کے دوران فریقین کی جانب سے مشین گنوں، راکٹ لانچروں اور اینٹی ایئر کرافٹ گنوں سمیت دیگر بھاری اسلحہ استعمال کیا گیا۔
لیبیا کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی ملیشیاؤں اور مسلح گروہوں نے طرابلس کو قذافی حکومت کے اقتدار سے آزاد کرانے کے لیے مسلح جدوجہد کی تھی تاہم قذافی حکومت کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومت میں اثر و رسوخ کے حصول کے لیے ان مسلح گروہوں میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان وکٹوریا نولینڈ نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے لیبیا میں جاری لڑائی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے تنازعات کو ایسے انداز میں حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے جس سے ہر لیبیائی شہری ملک کے مستقبل میں اپنے کردارپر مطمئن ہوسکے۔
دریں اثنا لیبیا کی عبوری حکومت نے یوسف منگوش کو ملکی افواج کا نیا سربراہ نامزد کردیا ہے۔
منگوش نے ایک دہائی قبل فوج سے استعفیٰ دے دیا تھا اور بعد ازاں وہ قذافی حکومت کے خلاف ہونے والی مسلح بغاوت میں شریک رہے تھے جس کے دوران معمر قذافی کے حامیوں نے انہیں گرفتار کرلیا تھا۔
بعد ازاں طرابلس پر قذافی مخالف جنگجووں کے قبضے کے بعد منگوش کو رہا کردیا گیا تھا۔