اسرائیل کی جانب سے ضم کیے جانے والے مشرقی یروشلم میں ایک اہم لائبریری اس فلسطینی تاریخ کی ایک نادر جھلک پیش کرتی ہے جس میں اسرائیل کے وجود میں آنےسے سینکڑوں سال پہلے کے مخطوطات کا پورا خزانہ موجود ہے۔
اٹلی سے تربیت یافتہ رامی سلامہ عربی گرامر کے ایک نازک متن پر خشک برش کو احتیاط سے چلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ"ان مخطوطات میں فقہ سے لے کر فلکیات، پیغمبرِ اسلام کی سیرت و حیات اور قرآن کے نادر نسخے شامل ہیں۔"
اپنی چھوٹی ورکشاپ میں وہ سکون کا سانس لیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ 200 سال پرانی دستاویز کو آکسیڈیشن کے نتیجے میں رنگ اڑ جانے کا خدشہ نہیں ہے۔
اکیلے کام کرتے ہوئے، سلامہ پچھلے ڈھائی برس میں فلسطینی لائبریریوں سے ایک درجن سےزیادہ مخطوطات کے 1200 صفحات کو پہلے ہی بحال کرچکے ہیں۔
یہ اشیاء تقریباً 300 سو سال قدیم ہیں اور ان کی تاریخ عثمانی دور سے جاملتی ہے۔ زیادہ تر مسودات خالدی لائبریری سے حاصل کیے گئے ہیں جو فلسطینی علاقوں میں عربی اور اسلامی نسخوں کا سب سے بڑا نجی ذخیرہ ہے۔
تاریخ داں ندی أبو سعادہ نے ایک ٹوئٹ میں ویڈیو شئیر کی ہے جس میں اس تاریخی لائبریری کو، پرانے شہر کو، یہاں کے نادر ذخیرے کو اور یہاں کام کرنے والوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔
New short film about three Jerusalem Manuscript Libraries joining efforts to preserve vulnerable Islamic and Arab cultural heritage in the city. Produced by Nun Films in collaboration wth the Khalidi Library and ALIPH.https://t.co/7ZIa51o2Yh
— Nadi Abusaada (@NadiSaadeh) March 12, 2023
پرانے شہر میں مسجد اقصیٰ کے ایک داخلی راستے کے قریب واقع اس لائبریری کی بنیاد فلسطینی جج راغب الخالدی نے 1900 میں رکھی تھی۔ اس کی مرکزی عمارت سےمغربی دیوار نظر آتی ہے۔ مغربی دیوار وہ مقام ہے جہاں یہودی عبادت کرسکتے ہیں۔
مبینہ طور پر جنگجو سلطانوں نے 12ویں اور 13ویں صدی میں یروشلم کو صلیبی جنگوں کے بعد آزاد کرانے میں کردار ادا کیا۔
اس مجموعے میں بااثر خالدی خاندان کی دستاویزات سمیت، کتابیں، خط و کتابت، عثمانیہ دور کے فرمان اور اخبارات شامل ہیں، جو مقدس شہر میں ماضی کی زندگی کا بھرپور نظارہ پیش کرتے ہیں۔
The Khalidi public library in the old city of Jerusalem, founded in 1900, contains many precious Arabic manuscripts, such as this work of the 10th century Basran man of letters Ibn Durayd, possibly written in his own hand. pic.twitter.com/wQPaR1OmKX
— Ahmed El Shamsy (@a_el_shamsy) May 13, 2021
لائبریری میں دسویں صدی کا ایک قلمی نسخہ بصرہ کے ایک عالم ابن درید کی کتاب سے ہے، جو غالبأ ان کی اپنی تحریر میں ہے۔
’ تحریریں شاہد ہیں کہ اسرائیل کے وجود میں آنے سے صدیوں قبل فلسطینی یہاں آباد تھے‘
لائبریری کے منتظم اور بحالی کے ماہر خضر سلامہ کہتے ہیں کہ "لائبریری کے مندرجات صیہونی دعوے کی نفی کرتے ہیں کہ یہ ملک غیر آباد تھا۔"
انہوں نے اس رائج تصورکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جس کے مطابق 1948 میں اسرائیل کے قیام اور ساڑھےسات لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کی بے دخلی سے قبل یہ سر زمین غیر آباد تھی۔
"ہمارے پاس ایسے مخطوطات موجود ہیں جو یروشلم کے لوگوں کی ثقافتی اور سماجی حیثیت کے بارے میں بات کرتے ہیں اور یہ صدیوں سے فلسطینیوں کی یہاں موجودگی کا اشارہ ہے۔"
مشرقی یروشلم میں فلسطینی خاندانوں کو اس وقت سے اکثر اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے لیے بے دخل کیا جاتا رہا ہے جب سے اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ میں اولڈ سٹی سمیت اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے ضم کرلیا تھا۔
اس اقدام کو اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے غیر قانونی قرار دیا تھا۔
اس لائبریری میں فارسی، جرمن اور فرانسیسی کتابیں بھی ہیں جن میں فرانسیسی مصنف وکٹر ہیوگو کا ایک مجموعہ بھی شامل ہے۔
’جدید تاریخ میں اس لائبریری کو بچانے میں اسرائیلی دانشوروں نے اہم کردار ادا کیا‘
لائبریرین خضر سلامہ نے تاسف کے ساتھ کہا کہ لائبریری کے کچھ حصے پر اسرائیلی آباد کاروں نے یہودی مذہبی اسکول بنانے کے لیے قبضہ کر لیا تھا۔ لائبریری کی انتظامیہ نے تصفیہ کے لیے ایک طویل قانونی جنگ لڑی لیکن اس کے کچھ حصے پر قبضے کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
خضرسلامہ نےبتایا کہ اسرائیلی دانشوروں نے لائبریری انتظامیہ کی حمایت کی اور ہمارے حق میں عدالت میں گواہی دی۔
ان کے بقول نتیجہ بہت زیادہ خراب ہو سکتا تھا اور آباد کار تمام املاک پر قبضہ کر لیتے اگر یہ حمایت انہیں حاصل نہ ہوتی۔
اس وقت سے لائبریری نے مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کے تعاون سے یروشلم میں ثقافتی ورثے کو اپنی بحالی اور ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے محفوظ کرنا جاری رکھا ہوا ہے۔
ایک ڈیجیٹل آرکائیو افسر شمع البدیری کہتی ہیں کہ "ہم کاغذ کو روشنی میں لائے بغیر، دستاویزات کو بہت زیادہ درستگی کے ساتھ پکڑتے ہیں، کیوں کہ مخطوطات بہت نازک ہوتے ہیں اور ہم انہیں زیادہ سے زیادہ دیر تک محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔"
ڈیجیٹل آرکائیو افسر شمع البدیری اپنے دفتر میں سیکڑوں کتابوں اور آلات سے گھری ہوئی رہتی ہیں جب کہ اپنے کمپیوٹر پر تصاویر بنانے اور اپ لوڈ کرنے کے لیے صفحات کو پہلے صاف کرتی ہیں۔
آج تک انہوں نے یروشلم کی چار نجی لائبریریوں سے تقریباً 25 لاکھ صفحات کے مخطوطات، اخبارات، نایاب کتابوں اور دیگر دستاویزات کی تصویر کشی کی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ڈیجیٹلائزیشن آگے بڑھنے کا راستہ ہے کیوں کہ یہ محققین کو لائبریری کی محفوظ شدہ دستاویزات تک دور دراز رسائی کی اجازت دیتا ہے۔
انہیں امید ہے کہ بحالی کے کام کے لیے مزید فنڈنگ حاصل کی جائے گی تاکہ تیزاب سے پاک اسٹوریج بکس سمیت دیگر ساز و سامان خریدا جاسکے۔
وہ نمی سے محفوظ رکھنے لیے ورکشاپ کو بھی اپ ڈیٹ کرنا چاہتی ہیں جس سے نازک مخطوطات کے ساتھ ان کے کام کو خطرہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کتابوں سے ان کی محبت ہی ان کے کام کے لیے جنون کو آگے بڑھاتی ہے۔
"اگر میں کسی کو بے دردی سے کتاب پکڑے ہوئے دیکھتی ہوں، تو مجھے لگتا ہے کہ کتاب تکلیف میں ہے۔"
وہ کہتی ہیں "کتاب آپ کو کچھ دیتی ہے، آپ سے چھینتی نہیں۔"
اس رپورٹ میں مواد خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لیا گیا ہے۔