لبنان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے مضمرات

شامی حکومت کے حامی اور مخالفین کے درمیان مسلح جھڑپوں میں ایک شخص نشانہ باندھے بیٹھا ہے

لبنانی چاہیں یا نہ چاہیں، وہ شام کے زیرِ سایہ ہیں اور وہاں جو کشمکش جاری ہے، وہ اس سے خود کو مکمل طور پر علیحدہ نہیں کر سکتے۔
لبنان میں انٹیلی جنس چیف کے قتل کے بعد فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا اور یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ ملک شام کی جنگ میں مزید الجھ جائے گا ۔ لبنانی سیاست داں اور ان کے اتحادی مغربی ممالک، ملک میں امن و سکون قائم رکھنے پر زور دے رہے ہیں ۔ بعض سیاسی مبصروں کا خیال ہے کہ کشیدگی کے باوجود، لبنان موجودہ طوفان کو جھیل لے گا ۔


گذشتہ جمعہ کو لبنان کی پولیس کے انٹیلی جنس چیف وسام الحسن کی ہلاکت سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑیں گے۔ شام میں روز افزوں فرقہ وارانہ جنگ کی وجہ سے لبنان میں کشیدگی پہلے ہی بڑھ گئی ہے۔

الحسن سنّی مسلمان تھے اور انہیں لبنان کے معاملا ت میں شام کی علویہ حکومت کی دخل اندازی کی راہ میں مؤثر چیلنج سمجھا جاتا تھا۔ بمباری کے جس واقعے میں ان کی جان گئی، اس کی تفتیش جاری ہے ، لیکن شام کے مخالف گروپ کے بہت سے لوگوں نے اس واردات کا شبہ شام پر یا اس کے لبنانی اتحادی، حزب اللہ پر ظاہر کیا ہے۔

شام کی جنگ سے لبنان کی کئی مذاہب کے ماننے والوں کی سیاست کا نازک تانا بانا شدت سے متاثر ہوا ہے۔ 8 مارچ کی تحریک کی حکومت جو شام کی حامی ہے، 14 مارچ کی شام کی مخالف حزبِ اختلاف کے مد مقابل آ گئی ہے۔

عام لوگوں کی سطح پر، اس کا مطلب یہ ہے کہ شیعوں کا مقابلہ سنیوں سے ہے۔ ہلال کاشانی بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں سیاسیات کا مضمون پڑھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’کبھی کبھی اچانک تشدد پھوٹ پڑتا ہے ۔ لبنان کے سنیوں میں بہت زیادہ غصہ اور ناراضگی ہے ، لیکن فوج نے ان پر قابو پا رکھا ہے۔‘‘

بیروت میں کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کے ڈائریکٹر پاؤل سالم کہتے ہیں کہ اگرچہ شام میں لڑائی سے لبنان کی صورتِ حال زیادہ کشیدہ ہو گئی ہے، لیکن شام کے اثر و رسوخ کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان اختلافات کی جڑیں بہت گہری ہیں ۔ ان میں گذشتہ عشرے کے دوران ہونے والی قتل کی وارداتیں جو ہنوز حل طلب ہیں، اور شام کی طرف سے لبنان کا تقریباً 30 سال تک قبضہ شامل ہے۔

لیکن سالم کا خیال ہے کہ بمباری کے اس واقعے کے، جس میں ملوث ہونے سے دمشق نے انکار کیا ہے، کچھ زیادہ وسیع مضمرات نہیں ہوں گے ۔

’’میرے خیال میں اگر یہ حرکت شام کی تھی تو اس کا مقصد لبنان کو غیر مستحکم کرنا نہیں تھا۔ مقصد صرف یہ تھا ایک بہت مؤثر سیکورٹی چیف کو ہٹا دیا جائے جو در اصل شام کا مخالف تھا، اور لبنان میں شام کے مخالف اتحاد کے بہت قریب تھا اور جس نے لبنان میں شام کے مفادات کے خلاف بہت سی تفتیشیں اور گرفتاریاں کی تھیں۔‘‘

اس کے علاوہ، لبنان کی موجودہ حکومت جو شام کی دوست ہے اور جس پر حزب اللہ کا غلبہ ہے، شام کے صدر بشا رالاسد کی ضرورتوں کے عین مطابق ہے۔ پھر بھی، اختلافات میں اضافے اور ممکنہ سیاسی خلا کے پیشِ نظر، لبنان کے اتحادیوں نے ملک میں امن و امان قائم رکھنے پر زور دیا۔

منگل کے روز یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین اشٹن بیروت پہنچیں۔ انھوں نے کہا’’میں تمام سیاسی لیڈروں پر زور دیتی ہوں کہ ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جو آج کل لبنان کو درپیش ہیں، تعمیری حل تلاش کرنے پر توجہ دیں ۔ اس زمانے میں، مملکت کے مضبوط ادارے جو سلامتی کو یقینی بنا سکیں اور ضروری سہولتیں فراہم کر سکیں، انتہائی اہم ہیں۔‘‘

لیکن عدم استحکام اب بھی باقی ہے۔ اس میں اضافے کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکی اور یورپی عہدے داروں نے بمباری کے بعد ملک میں سیاسی تسلسل قائم رکھنے پر زور دیا، اگرچہ لبنان میں ان کے اتحادی حکومت سے اقتدار چھوڑ دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

مغربی عہدے دار اب ممکنہ بتدریج تبدیلی کے تصور کے حامی ہیں۔ اگرچہ لبنان کا بحران مکمل طور سے ختم نہیں ہوا ہے، پھر بھی کارنیگی سینٹر کے پاؤل سالم جیسے لوگوں کے خیال میں یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ لبنان شام کی جنگ میں بڑی حد تک نہیں الجھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ لبنان کے بعض سنّی شام کے سنی باغیوں کی حمایت ضرور کرتے ہیں، اور حزب اللہ شام کی حکومت کی مدد کرتی ہے، لیکن ان کا عمل دخل بہت محدود ہے۔

’’ہمیں بڑی خوشگوار حیرت ہوئی ہے کہ لبنان اتنے طویل عرصے تک اپنا استحکام برقرار رکھ سکا ہے۔ گذشتہ اختتامِ ہفتہ اس استحکام کے لیے بڑی آزمائش تھی، لیکن میرے خیال میں لبنان اس چیلنج کا سامنا کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔‘‘

لیکن ابھی بات ختم نہیں ہوئی۔ کشیدگی اب بھی بہت زیادہ ہے کیوں کہ لبنانی چاہیں یا نہ چاہیں، وہ شام کے زیرِ سایہ ہیں اور وہاں جو کشمکش جاری ہے، وہ اس سے خود کو مکمل طور پر علیحدہ نہیں کر سکتے۔