لبنان میں اتوار کو رائے دہندگان نو سالوں میں پہلی مرتبہ عام انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں لیکن بظاہر ان انتخابات میں بھی ملک میں طاقت کے توازن میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں جو کہ اقتصادی استحکام کے لیے ضروری تصور کی جا رہی ہے۔
بیروت کی گلیوں میں لوگ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں گھومتے اور اسکولوں میں قائم پولنگ اسٹیشنز کے جمع دکھائی دیے۔ ہر طرف دیواروں پر انتخابی امیدواروں کے پوسٹرز چسپاں ہیں۔
لبنان کو نہ صرف اندرونی بلکہ خطے کی صورتحال کے باعث بھی بہت کچھ برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس کے پڑوسی ملک شام میں گزشتہ سات سالوں سے لڑائی جاری ہے اور پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد اس چھوٹے سے ملک کا رخ کر چکی ہے جب کہ گزشتہ انتخابات کے بعد سے ملک کو اندرونی طور پر کئی ایک بحرانوں سے بھی گزرنا پڑا ہے۔
ٹیلی ویژن پر لوگوں کو پولنگ اسٹیشنز کے باہر قطاروں میں دکھایا جا رہا ہے جو کہ ووٹ ڈالنے کے لیے اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔
پولنگ کا عمل مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے شروع ہوا تھا جو کہ بغیر کسی وقفے کے شام سات بجے تک جاری رہے گا اور توقع ہے کہ ابتدائی غیر سرکاری نتائج آنے کا سلسلہ رات دیر گئے شروع ہو جائے گا۔
انتخابی قوانین کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کی انتخابی کارکردگی سے متعلق جائزے جاری کرنا غیر قانونی ہے۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ توقع یہی کی جا رہی ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ملخوط حکومت ہی معرض وجود میں آئے گی۔
مبصرین خاص طور پر سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم سعد الحریری کی 'فیوچر موومنٹ پارٹی' اور ایران نواز شیعہ حزب اللہ گروپ اور اس کے اتحادیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
2009ء میں گزشتہ انتخابات کے بعد خطے کی صورتحال میں تبدیلی اور شام میں لڑائی شروع ہونے سے لبنان کو لاکھوں پناہ گزینوں کا بوجھ برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ عسکریت پسندوں کے حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑا جس سے سیاسی سطح پر بھی خاصا اختلاف دیکھنے میں آ چکا ہے۔