شکیل آفریدی کے وکیل کا کہنا ہے کہ قتل اور اس سے جڑے دیگر الزامات کو اعلٰی عدلیہ میں چیلنج کیا جائے گا۔
القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسی ’سی آئی ای‘ کی معاونت کرنے والے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کے خلاف قتل کا نیا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔
قبائلی انتظامیہ میں شامل حکام کے مطابق یہ مقدمہ خیبر ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر میں ایک خاتون کی شکایت پر درج کیا گیا، جس نے اپنی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا کہ شکیل آفریدی نے سرجری میں ماہر نا ہونے کے باوجود اُس کے بیٹے کا آپریشن کیا تھا جو بعد ازاں طبی پیچیدگیوں کی وجہ سے دم توڑ گیا۔ شکیل آفریدی اس قبائلی علاقے میں میڈیکل آفیسر تھے۔
شکیل آفریدی کے وکیل لطیف آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قبائلی انتظامیہ کے دفتر سے مقدمے کی تفصیلات حاصل کی جا رہی ہیں جس کے بعد باضابطہ لائح عمل وضع کیا جائے گا۔
مگر اُنھوں نے واضح کیا کہ قتل اور اس سے جڑے دیگر الزامات کو اعلٰی عدلیہ میں چیلنج کیا جائے گا۔
’’ہم اس میں ہائی کورٹ بھی جائیں گے، سپریم کورٹ بھی جائیں گے اور ہم اس کو چیلنج کریں گے ... ہم اس جھوٹے، بے بنیاد اور غلط مقدمے کی بنیاد پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کے خلاف قانونی کارروائی کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘
صوبہ خیبر پختون خواہ کے دارالحکومت پشاور کے کمشنر نے شکیل آفریدی کو خیبر ایجنسی کی ایک عدالت کی طرف سے سنائی گئی 33 سال قید اور جرمانے کی سزا کو حال ہی میں کالعدم قرار دے دیا تھا۔
شکیل آفریدی تاحال زیرِ حراست ہیں اور اُنھوں نے اپنے خلاف قائم مقدمے کی از سر نو سماعت کی درخواست بھی دے رکھی ہے۔
خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ کے اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ کی عدالت نے گزشتہ سال شکیل آفریدی کو کالعدم تنظیم لشکر اسلام سے روابط اور اس شدت پسند تنظیم کی مالی معاونت کرنے کے جرم میں سزا سنائی تھی۔
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے اکتوبر میں دورہ واشنگٹن کے دوران اُن کی امریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے اراکین سے ملاقات میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ شکیل آفریدی کو رہا کیا جائے۔
لیکن پاکستان کے سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے بعد میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ شکیل آفریدی کا معاملہ عدالت میں ہے اور وہ جو فیصلہ کرے گی پاکستانی حکومت اس کا احترام کرے گی۔
قبائلی انتظامیہ میں شامل حکام کے مطابق یہ مقدمہ خیبر ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر میں ایک خاتون کی شکایت پر درج کیا گیا، جس نے اپنی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا کہ شکیل آفریدی نے سرجری میں ماہر نا ہونے کے باوجود اُس کے بیٹے کا آپریشن کیا تھا جو بعد ازاں طبی پیچیدگیوں کی وجہ سے دم توڑ گیا۔ شکیل آفریدی اس قبائلی علاقے میں میڈیکل آفیسر تھے۔
شکیل آفریدی کے وکیل لطیف آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قبائلی انتظامیہ کے دفتر سے مقدمے کی تفصیلات حاصل کی جا رہی ہیں جس کے بعد باضابطہ لائح عمل وضع کیا جائے گا۔
مگر اُنھوں نے واضح کیا کہ قتل اور اس سے جڑے دیگر الزامات کو اعلٰی عدلیہ میں چیلنج کیا جائے گا۔
’’ہم اس میں ہائی کورٹ بھی جائیں گے، سپریم کورٹ بھی جائیں گے اور ہم اس کو چیلنج کریں گے ... ہم اس جھوٹے، بے بنیاد اور غلط مقدمے کی بنیاد پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کے خلاف قانونی کارروائی کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘
صوبہ خیبر پختون خواہ کے دارالحکومت پشاور کے کمشنر نے شکیل آفریدی کو خیبر ایجنسی کی ایک عدالت کی طرف سے سنائی گئی 33 سال قید اور جرمانے کی سزا کو حال ہی میں کالعدم قرار دے دیا تھا۔
شکیل آفریدی تاحال زیرِ حراست ہیں اور اُنھوں نے اپنے خلاف قائم مقدمے کی از سر نو سماعت کی درخواست بھی دے رکھی ہے۔
خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ کے اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ کی عدالت نے گزشتہ سال شکیل آفریدی کو کالعدم تنظیم لشکر اسلام سے روابط اور اس شدت پسند تنظیم کی مالی معاونت کرنے کے جرم میں سزا سنائی تھی۔
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے اکتوبر میں دورہ واشنگٹن کے دوران اُن کی امریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے اراکین سے ملاقات میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ شکیل آفریدی کو رہا کیا جائے۔
لیکن پاکستان کے سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے بعد میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ شکیل آفریدی کا معاملہ عدالت میں ہے اور وہ جو فیصلہ کرے گی پاکستانی حکومت اس کا احترام کرے گی۔