گولن کو ملک بدر نہ کیا جائے: وکلا

’’ملک بدری دراصل قانونی کارروائی ہے۔ ہم قانون دان ہیں، ہم ثبوت پر چلتے ہیں اور ہم باضابطہ عمل کو دیکھتے ہیں۔ اس لیے، ملک بدری کی کارروائی کا ثبوت ضروری ہے اور ضوابط کی پاسداری لازم ہے‘‘

امریکہ میں مقیم مسلمان عالم دین فتح اللہ گولن کے وکلا نے کہا ہے کہ ترکی نے اس بات کا ثبوت فراہم نہیں کیا کہ پچھلے مہینے تختہ الٹے جانے کی ناکام کوشش میں وہ ملوث ہیں، جس کے بعد ہی اُن کی ممکنہ ملک بدری ہو سکتی ہے۔

جمعے کے روز واشنگٹن میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے، گولن کے ایک اٹارنی، ریڈ وائن گارٹن نے کہا کہ اُن کے مؤکل کے خلاف سازش کے الزامات کی ’’پیچیدگی اور بیہودگی‘‘ کا پتا لگتا ہے، یہ کہنا کہ بغاوت کے پیچھے اُن کا اور سی آئی اے کا ہاتھ تھا، جن الزامات کی شدت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
وائن گارٹن نے اس بات کی جانب توجہ دلائی کہ گولن کی ملک بدری کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے ترکی کے تین وزرا امریکہ آئے تھے۔

وائن گارٹن کے الفاظ میں ’’اِن الزامات کی انتہا یہ ہے کہ ہم ترک حکومت کی جانب سے سرکاری اقدامات کو دیکھتے ہیں، جو ہمارے لیے باعثِ تشویش ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ تین وزرا یہاں آئے۔ ہماری سمجھ کے مطابق، وہ امریکہ پر دباؤ ڈالنے آئے تھے کہ ملک بدری کی درخواست پر عمل کیا جائے‘‘۔

امریکہ نے ترکی سے کہا ہے کہ وہ عالم دین کے ملوث ہونے کا ثبوت پیش کرے تاکہ ملک بدری کا عمل شروع کیا جاسکے۔ وائن گارٹن کا کہنا ہے کہ ترکی نے اپنے دعوؤں کی حمایت میں ثبوت فراہم نہیں کیا۔

ریڈ گارٹن کے الفاظ میں ’’ملک بدری دراصل قانونی کارروائی ہے۔ ہم قانون دان ہیں، ہم ثبوت پر چلتے ہیں اور ہم باضابطہ عمل کو دیکھتے ہیں۔ اس لیے، ملک بدری کی کارروائی کا ثبوت ضروری ہے اور ضوابط کی پاسداری لازم ہے‘‘۔

بغاوت کے بعد ترکی میں لوگوں کو ہٹائے جانے کے اقدامات پر، وائن گارٹن نے ملک میں گولن کو مقدمے کی کارروائی میں انصاف میسر آنے کے معاملے پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اور زور دے کر کہا کہ اُن کے مؤکل کو ’’ملک بدر نہ کیا جائے، وہ ملک بدر نہیں ہوں گے‘‘۔