پاکستان میں بچوں کے خلاف تشدد اور ان سےجبری مشقت لینے کے واقعات اکثر منظر عام پر آتے رہے ہیں جس پر بچوں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کے تدارک کے لیے موثر قانون سازی کا مطالبہ کرتی آئی ہیں۔
اسی سلسلے میں پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے منگل کو دو مجوزہ قوانین کی منظوری دی ہے جو حکام کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور وفاق کے دائرہ کار میں آنے والے علاقوں میں آباد بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں موثر ثابت ہوں گے۔
پاکستان میں غربت کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں بچے نہ صرف سے تعلیم سے محروم ہیں بلکہ گھروں اور ورکشاپوں میں مشکل صورت حال میں کام کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں بچے پاکستان کے مختلف شہروں میں بھیک مانگتے بھی نظر آتے ہیں۔
بچوں کے تحفظ سے متعلق مجوزہ قانون میں انہی بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے عملی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
پاکستان کی انسانی حقوق سے متعلق وزارت کے حکام کا کہنا ہے کہ مجوزہ قانون تمام بچوں بشمول لاوارث اور یتیموں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں معاون ثابت ہوں گے۔
انسانی حقوق کی وفاقی وزارت کے ایک اعلیٰ اہلکار حسن منگی نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس مجوزہ قانون کے تحت ممکنہ خطرات کا سامنے کرنے والے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کا ایک طریقہ کار بھی وضع کیا جائے گا۔
پاکستان میں استحصال کا شکار بچوں سے متعلق آواز بلند کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں اور سرگرم کارکن طویل عرصے سے حکومت سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن اور سینئر قانون دان ضیا احمد اعوان کا کہنا ہے کہ مسئلہ قوانین کے فقدان کا نہیں بلکہ پہلے سے موجود قوانین کے نفاذ کو موثر بنانا ضروری ہے۔
"باوجود اس کے کہ ہمارے ہاں (پاکستان میں) قوانین کی کتابوں میں بہت ترقی پسند قوانین موجود ہیں اگر ان پر ہی عمل درآمد شروع ہو جائے تو پھر پاکستان ایک مختلف پاکستان ہو گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ قوانین بہت بن رہے ہیں اور بہت اچھے بن رہے ہیں جو خوش آئند ہے لیکن کوئی صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی یا سینیٹ یہ دیکھے کہ ان پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا اور اس راہ میں مشکلات کیا ہیں۔"
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اسکول جانے کی عمر کے لگ دو کروڑ 20 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جو غربت کی وجہ سے مشکل حالات میں گھروں یا دیگر جگہوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔
حسن منگی کے بقول ایسے ہی بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے یہ قانون وضع کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ قانون صرف اسلام آباد کے لیے ہو گا لیکن تمام صوبائی حکومتیں بھی بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کررہی ہیں۔