لشکر جھنگوی کے رہنما ملک اسحاق کی ہلاکت کے بعد مبصرین کا ماننا ہے کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب حکومت شہری علاقوں میں بھی روپوش شدت پسندوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی چاہتی ہے۔
بعض قانون سازوں کا ماننا ہے کہ اس سے شدت پسندی کے خلاف کوششوں کو تقویت ملے گی۔ لشکر جھنگوی کو شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف حملوں کے باعث خوف کی علامت سمجھا جاتا رہا۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ منگل کی شب ملک اسحاق اور اُن کے دو بیٹوں کو اسلحہ و گولہ بارود کی برآمدگی کی نشاندہی کے لیے مظفر گڑھ لے جایا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
حکام کے مطابق واپسی پر بدھ کی صبح شدت پسندوں نے ملک اسحاق کو چھڑانے کے لیے پولیس پر حملہ کیا اور اس دوران ملک اسحاق اور اُس کے دو بیٹوں سمیت 14 ’شدت پسند‘مارے گئے۔
اگرچہ پولیس کی طرف سے ملک اسحاق کی ہلاکت سے متعلق مبہم بیان پر سوالات بھی اُٹھائے جا رہے ہیں لیکن ساتھ ہی اسے شدت پسندوں کے خلاف بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا افضل کہتے ہیں کہ یہ دہشت گردی کے خلاف حکومت کی ایک اہم کامیابی ہے۔
’’یہ بڑے ہی خطرناک قسم کے مجرم تھے، ہماری حکومت پر بڑا دباؤ تھا کہ ہم جنوبی پنجاب میں کارروائی نہیں کر رہے ہیں، اُن کی وہاں پناہ گاہیں ہیں۔ کافی عرصے سے ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں اور فورسز اُس علاقے میں کام کر رہی تھیں۔‘‘
وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔
’’جتنے بھی دہشت گرد گروپ ہیں، وہ کسی بھی نام سے کام کر رہے ہوں۔ وہ صرف ’دہشت گرد‘ ہیں۔۔۔۔ جس کا ہم مقابلہ کر رہے ہیں اور ہمیں کامیابی بھی مل رہی ہے۔‘‘
لشکر جھنگوی پر پاکستان میں آباد شیعہ آبادی پر مہلک حملوں کا الزام تھا، اگرچہ ملک اسحاق کئی سال جیل میں رہے لیکن عدم شواہد کی بنا پر اُن کو سزا نا ہو سکی۔
پاکستانی فوج دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کہہ چکے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف ملنے والی کامیابیوں کے باعث اب ملک کے اداروں کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ شہری علاقوں میں چھپے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کریں۔