برطانیہ میں شرعی قوانین اور اس کی مخالفت

خواتین کے مساوی حقوق کے لئے کام کرنے والی بیشتر برطانوی تنظیموں نے اسلامی قوانین کے تحت وصیت تیار کرنے کی گائیڈ لائنز کو برطانیہ میں پہلے سے موجود خواتین کو یکساں اور مساوی حقوق دینے کے قوانین سے متصادم قرار دیا ہے۔
برطانیہ میں ملکی قوانین میں ترامیم کی ریگولیٹری باڈی’ لاء سوسائٹی ‘نے برطانوی وکلا کو جاری کی گئی گائیڈ لائنز میں انھیں اسلامی قوانین کے تحت وصیت تیار کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ برطانیہ میں اس سے قبل صرف برٹش قانون کے تحت ہی وصیت تیار کی جا سکتی تھی لیکن برطانیہ میں مقیم لاکھوں مسلمان اب شرعی قوانین کے تحت اپنی وصیت تیار کرا سکیں گے۔

لاء سوسائٹی کی جانب سے جاری کی گئی گائیڈ لائنز کو برطانوی مسلمان تنظیموں نے تو خوش آئند قرار دیا ہے لیکن خواتین کے مساوی حقوق کے لئے کام کرنے والی بیشتر برطانوی تنظیموں نے اسلامی قوانین کے تحت وصیت تیار کرنے کی گائیڈ لائنز کو برطانیہ میں پہلے سے موجود خواتین کو یکساں اور مساوی حقوق دینے کے قوانین سے متصادم قرار دیا ہے۔

نیشنل سیکولر سوسائٹی کے ڈائریکٹر کیتھ پورٹیس کے مطابق لاء سوسائٹی کا حالیہ اقدام برطانوی معاشرے کو پیچھے کی جانب دھکیل دے گا۔۔ لیکن لاء سوسائٹی نے اپنی گائیڈلائنز کو برطانوی معاشرے میں اچھی روایات کوبڑھاوا دینے سمیت وکلا کی مدد کے لیے اسے ایسا اقدام قرار دیا ہے جس کے تحت برطانوی وکلا مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اپنے موکلوں کو بہتر خدمات فراہم کر سکیں گے۔

برطانیہ میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا گائیڈ لائنز پرسب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس قانون کے تحت خواتین کو مردوں کی بہ نسبت جائیداد میں کم حصہ ملے گا جو ان کے بقول برطانوی وراثتی قوانین کے خلاف ہے۔

برٹش پاکستانی لائرز ایسوسی ایشن کے سربراہ بیرسٹر امجد ملک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لاء سوسائٹی کی حالیہ گائیڈلائنزسے برطانیہ میں جاری کئی غیر قانونی پریکٹسز کو قانونی حیثیت مل جائے گی جو ایک خوش آئند بات ہے۔وٴ

ان کے الفاظ میں برطانیہ میں مقیم مسلمان وراثت، خاندانی معاملات اور طلاق وغیرہ جیسے مسائل اس سے قبل بھی اسلامی قوانین کے تحت حل کیا کرتے تھے لیکن ان کے فیصلوں کو قانونی حیثیت حاصل نہیں تھی لیکن اب اگر وہ قانونی طور پر اپنے مسائل شرعی قوانین کے تحت حل کر سکتے ہیں تو اسے ایک مثبت اقدام کے طور پر لینا چاہئے۔