جسٹس جاوید اقبال کے والدین کے قتل کا معمہ حل کرلیا گیا ہے ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے دوران حراست جسٹس جاوید اقبال کے سوتیلے بھائی نوید اقبال نے والدین کے قتل کا اعتراف کر لیا ہے تاہم نوید اقبال نے میڈیا سے بہت مختصر گفتگو میں کہا ہے کہ اس نے قتل نہیں کیا، اسے قتل کے الزام میں پھنسایا جارہا ہے۔ملزم کو گزشتہ روز گرفتار کیا گیا تھا۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ملزم کی گرفتار ی کی تصدیق کی ہے۔
اس حوالے سے سی سی پی اولاہور اسلم ترین نے لاہور میں میڈیا کے نمائندوں کو پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ دوران تفتیش ملزم نوید اقبال نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے اپنے دیگر دو ساتھیوں عباس اور امین کے ہمراہ اپنے والدین کو قتل کیا ۔پولیس نے عباس کو بھی میڈیا کے سامنے پیش کیا جس نے قتل کا اعتراف کیا اور یہ بھی کہا کہ اس نے یہ قتل نوید اقبال کے کہنے پر کیا ہے ۔ دوسری جانب پولیس کی گاڑی میں موجود نوید اقبال نے میڈیا کو دیکھ کر بیان دیا کہ اسے قتل میں پھنسایا جارہا ہے ، اس نے یہ قتل نہیں کیا۔
سی سی پی اولاہور اسلم ترین کا کہنا ہے کہ قتل کا منصوبہ نوید اقبال نے منصوبہ تیار کیا اور وہ عباس اور امین کے ہمراہ والدین کو قتل کرنے کے لئے گھر پہنچا۔ والدین کے پوچھنے پر بتایا گیا کہ عباس اور امین کام کے سلسلے میں اس کے ساتھ آئے ہیں ۔ نوید نے عباس کو بتایا تھا کہ میرے اشارہ کرنے پر وہ والد کو پکڑ لے جبکہ والدہ کو مارنے کی ذمہ داری امین کی تھی ، لہذا بیٹے کے کہنے پر دونوں ملزمان نے والدین پر تشدد کر کے انہیں ہلاک کر دیا ۔ پولیس نے نوید اقبال اور عباس کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ امین کی گرفتاری کے لئے مختلف مقامات پر چھاپے مارے جا رہے ہیں ۔
سی سی پی او کے مطابق قتل کے بعد ملزمان رکشے کے ذریعے ایک تالوں کی دکان پر پہنچے جہاں انہوں نے تالے کھولنے والوں کو وہ بریف کیس دیا جو انہوں نے مقتولین کے گھر سے چرایا تھا ، تالہ بنانے والوں نے جب بیگ کھولنے سے انکار کیا تھا وہ بذریعہ رکشہ شاہ درہ پہنچے اور وہاں سے ہتھوری اور پیچکس لیا جس کے بعد دریا کے کنارے بیگ کو کھولا گیا جس میں سے دیگر کاغذات کے علاوہ ایک لاکھ 63 ہزار روپے کی رقم بھی بیگ سے نکالی گئی جسے تینوں ملزمان نے آپس میں بانٹ لیا ۔
سی سی پی او نے بتایا کہ پولیس کا مقصد صرف نوید اقبال کو گرفتار کرنا نہیں تھا بلکہ وہ دیگر قاتلوں کو بھی گرفتار کرنا چاہتے تھے اسی وجہ سے مزید معلومات اکٹھی کرنے کے بعد نوید اقبال کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ نوید اقبال جاوید اقبال کا سوتیلا بھائی تھا اور عبدالحمید کی دوسری شادی سے پیدا ہونے والی اولاد تھی ۔
انہوں نے بتایاکہ بنیادی طور پر نوید اقبال ایک نااہل شخص تھا اور اس کی خاندان میں کسی سے نہیں بنتی تھی تاہم والد اسکی مالی معاونت کرتے رہتے تھے اور انہوں نے اسے گھر بھی خرید کر دیا تھا ۔ اس مقدمے کی تفتیش روایتی طریقوں سے ہٹ کر سائنسی بنیادوں پر کی گئی ۔
اطلاعات کے مطابق جسٹس جاوید اقبال کے بھائی نوید اقبال نے پولیس کی حراست میں اعتراف کیا کہ اس نے اپنے والدین کو قتل کیا ہے ۔گیارہ جنوری کو سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج جسٹس جاوید اقبال کے والد ین 92 سالہ ملک عبدالحمید اور ان کی 85 سالہ اہلیہ آمنہ عبدالحمید کو ان کی رہائش گاہ واقع کیولری گراؤنڈ میں قتل کیا گیاتھا۔مقتولین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انہیں قتل کرنے سے قبل تشدد کا نشانہ بنایا گیا اوران کے جسم پر تشدد کے واضح نشانات موجود تھے ۔ جسٹس جاوید اقبال کے والد کے ہونٹ پر زخم کا نشان تھا جبکہ ان کی والدہ کی کئی پسلیاں ٹوٹی ہوئیں تھیں ۔ والدہ کے سینے پر بھی زخم کے نشان تھے۔
جائے واردات پر مقتول میاں بیوی کے بیڈ روم کا کچھ سامان بکھیرکر واقعے کو ڈکیتی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی تھی ۔ابتدائی رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ مقتولین کی موت شام چار سے پانچ بجے کے درمیان ہوئی۔ واضح رہے کہ جسٹس جاوید کے والدین اپنی رہائش گاہ پر اکیلے رہتے تھے اور ان کی موت کی اطلاع پیر کی شب 9 بجے اس وقت ملی جب گھر آنے والے کچھ مہمانوں نے لاشیں دریافت کیں۔
نوید اقبال کا موبائل ریکارڈ بھی پولیس نے حاصل کرلیا۔ملزم کے گلے پر موجود خراش بھی بہت سے سوالات کو جنم دے رہی تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ گھر یلو ملازمین کے اوقات کار کیا ہیں ۔ ان سے تحقیقات شک کی بنیاد پرکی گئی جس کے دوران انہوں نے اعتراف جرم کر لیا ۔ ابتدائی طور پر جائیداد کے تنازعہ پر ملزم نے والدین کو قتل کیا ۔
جسٹس جاوید اقبال کے والدین کے قتل کا مقدمہ کرنل ر یٹائرڈسعید احمد کی درخواست پر تھانہ فیکٹری ایریا میں نامعلوم افراد کے خلاف اقدام درج کرادیا گیاتھا۔جسٹس جاوید اقبال کے ملزم سمیت چار بھائی اور تین بہنیں ہیں۔