|
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کی پولیس نے برطانیہ میں جاری پرتشدد ہنگاموں اور احتجاج کو ہوا دینے کے الزام میں لاہور سے ایک شخص کو حراست میں لے لیا ہے۔
ملزم کو آرگنائزڈ کرائم یونٹ نے حراست میں لیا ہے جس کو مزید تفتیش کے لیے فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
ملزم کا نام فرحان آصف بتایا جاتا ہے اور وہ بطور فری لانسر کام کرتا ہے۔ زیرِ حراست شخص پر یہ الزام ہے کہ اس نے برطانیہ کے علاقے ساؤتھ پورٹ میں تین بچوں کے قتل کے بعد فیک نیوز پھیلائی جس سے ہنگاموں میں شدت آئی۔
ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزم نے تین بچیوں کے قتل کے حوالے سے جعلی ویڈیو پوسٹ کی جس سے بلوے اور ہنگاموں میں شدت آئی۔
ہنگاموں کا سلسلہ شمالی قصبے ساؤتھ پورٹ میں 29 جولائی کو تین کمسن لڑکیوں کے قتل کے ردعمل میں شروع ہوئے تھے جس کا سوشل میڈیا پر غلط طور پر الزام ایک مسلم پناہ گزین پر لگایا گیا تھا۔
ان جھوٹی خبروں کے پھیلنے کے بعد برطانیہ بھر کے شہروں اور شمالی آئرلینڈ میں بھی تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ لیکن حالیہ چند روز میں بدامنی کے واقعات میں ملوث افراد کی شناخت میں تیزی آنے کے بعد ہنگاموں اور تشدد میں کمی آ گئی ہے۔
معاملہ کیا ہے؟
ڈی آئی جی آپریشن لاہور فیصل کامران کہتے ہیں کہ برطانیہ میں ہنگامے اور پرتشدد کارروائیوں سے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے 'آئی ٹی وی' کی ریکارڈنگز سامنے آئی تھیں جس میں کہا گیا کہ پرتشدد کارروائیوں کا سبب بننے والی فیک نیوز کی شروعات پاکستان سے ہوئیں۔ اِس میں پاکستان پر براہِ راست الزام لگایا گیا جس پر اُس شخص کا پتا لگایا تو وہ لاہور کا شہری نکلا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل کامران کا کہنا تھا کہ مذکورہ شخص کو سی آئی اے کے دفتر بلایا اور اُس سے تفتیش شروع کی۔
وائس آف امریکہ کی رشین سروس کے انوسٹی گیٹیو رپورٹر میتھیو کمپفر نے نو اگست کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں پہلی مرتبہ اس فیک نیوز اور فرحان آصف کی ویب سائٹ 'چینل تھری ناؤ' کا انکشاف کیا تھا۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 'چینل تھری ناؤ' نے خود کو امریکی ویب سائٹ ظاہر کر کے خبر دی کہ ساؤتھ پورٹ حملے کا ملزم 17 سالہ مسلمان پناہ گزین علی الشکاتی ہے۔ یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔ حالاں کہ علی الشکاتی نام کے نوجوان کو سرے سے کوئی وجود ہیں تھا اور نہ ہی 'چینل تھری ناؤ' کوئی امریکی نیوز ویب سائٹ ہے۔
غلط معلومات کے پھیلاؤ کی وجہ سے برطانوی پولیس نے اصل حملہ آور کی شناخت ظاہر کی تھی جس کی عمر 17 برس اور نام ایکسل روڈاکوبانا ہے۔ وہ نہ ہی مہاجر اور نہ ہی مسلمان، لیکن اس کے باوجود برطانیہ میں ہنگاموں میں کمی نہیں آئی تھی۔
تاہم ڈی آئی جی آپریشن فیصل کامران کا دعویٰ ہے کہ فرحان آصف تیسرا شخص نے جس نے اِس خبر کو شئیر کیا۔ اُن کا کہنا تھا برطانیہ میں ہونے والے ہنگاموں کی خبر سب سے پہلے ایک روس کی ویب سائٹ پر شئیر کی گئی۔
اُن کے بقول اِس خبر کو برطانیہ ہی کی ایک 55 سالہ کاروباری شخصیت برنی نے شئیر کیا تھا جس کے بعد لاہور کے رہائشی نے بھی مذکورہ خبر کو کاپی پیسٹ کر کے اپنے چینل پر شئیر کر دیا۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ جب فرحان آصف نے یہ خبر شئیر کی تو یہ خبر مزید پھیلتی گئی اور وائرل ہو گئی۔ اُس کے بعد برطانوی نجی نشریاتی ادارے نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ خبر پاکستان سے نکلی ہے جب کہ 'بی بی سی ویری فائی' اور دیگر ذرائع نے کہا کہ پاکستانی شخص تیسرا بندہ ہے جس نے یہ خبر شئیر کی۔
ڈی آئی جی فیصل کامران کا کہنا تھا کہ بات جب زیادہ بڑھی تو پاکستانی شخص فرحان آصف نے اپنے چینل سے خبر کو ہٹا دیا اور معافی نامہ لکھ دیا۔
ملزم نے معافی میں لکھا کہ وہ ایک فری لانسر ہے۔ اُس نے صرف اپنے لائیکس اور فالورز بڑھانے کے لیے خبر کو پھیلایا تھا کیوں اُسے فری لانسنگ سے ماہانہ دو سے ڈھائی لاکھ روپے آمدنی ہوتی ہے۔
فرحان آصف نے بتایا کہ اُسے نہیں معلوم تھا کہ معاملہ اتنا بڑھ جائے گا۔
ایف آئی اے کی تحقیقات
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق ابتدائی تفتیش میں بھی ملزم کے پوسٹ کردہ مواد سے شر انگیزی ثابت ہوئی جب کہ ملزم سے مزید تفتیش جاری ہے۔
ذرائع ایف آئی اے کے مطابق ملزم کے خلاف سائبر ٹیررازم کی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہو گا جس پر سائبر کرائم ونگ کام کر رہا ہے۔
کیا برطانوی حکومت نے گرفتاری کے لیے رابطہ کیا؟
خیال رہے عمومی طور پر ایک ملک دوسرے ملک میں کسی بھی شخص کی گرفتاری کے لیے باقاعدہ باضابطہ طور پر رابطہ کرتا ہے۔ ملزم کے خلاف مواد شئیر کرتا ہے اور گرفتاری کی درخواست کرتا ہے۔
ڈی آئی جی آپریشن فیصل کامران نے بتایا کہ فرحان آصف کی گرفتاری کے لیے برطانیہ کی حکومت نے پاکستان کی حکومت سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ اِس شخص کو صرف تحقیقات کے لیے بلایا تھا جس کے بعد اُسے ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا ہے کیوں کہ یہ معاملہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے بھی مذکورہ شخص کی تاحال کوئی باقاعدہ گرفتاری نہیں ڈالی۔ ابھی تک صرف تحقیقات کی جا رہی ہیں۔