کروناوائرس کے سبب بھارت میں نافذ 40 روزہ لاک ڈاون نے جہاں عام زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے، وہیں سب سے زیادہ متاثر وہ لاکھوں مزدور ہیں جو دیہی علاقوں سے دوسری ریاستوں میں جا کر کام کرتے ہیں۔
یوم مئی کے عالمی دن کے موقع پر، مزدور نیشنل ہائی وے 24 پر جو کہ کم از کم ایک درجن ریاستوں سے گزرتا ہے اور دوسری سڑکوں پر بھی لانگ مارچ کر رہے ہیں۔ لاک ڈاون نے ان کی زندگی میں بری طرح اتھل پتھل مچا دی ہے اور وہ بے روزگاری کے شکار ہو کر بھوکے لوگوں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔
مزدوروں کی متعدد تنظیموں کی جانب سے اس بار یوم مئی مختلف انداز میں منایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے پروگراموں کا انعقاد تو ہو رہا ہے، لیکن ان میں سماجی فاصلے کا بھی خیال رکھا جا رہا ہے۔
مزدوروں کے لیے کام کرنے والوں کے ایک گروپ نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ لاک ڈاون کے دوران مزدوروں اور گھروں میں کام کرنے والے ملازموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر یکم مئی بروز جمعہ صبح سے شام تک کا برت رکھیں۔
اس کے علاوہ ایک آن لائن مہم بھی چلائی جا رہی ہے جس میں لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ضرورت مند مزدوروں تک پہنچیں اور ان کی خبرگیری کرتے ہوئے ان کی ضرورتیں پوری کریں۔
لیکن، مزدور کارکنوں کا کہنا ہے ان ہزاروں مزدوروں کے لیے یوم مئی منانے کا کوئی جواز نہیں ہے جو لاک ڈاون کی وجہ سے اپنی ملازمت اور کام سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور جو شہروں سے اپنے گھر پہنچنے کے لیے ہزاروں کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرنے پر مجبور ہیں۔
ورلڈ بینک کے مطابق، بھارت میں لاک ڈاون کی وجہ سے چار کروڑ مزدور متاثر ہوئے ہیں۔ اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی کے ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی نے یوم مئی کی مناسبت سے ایک نیوز کانفرنس میں الزام عائد کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے ملک کے مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے یومیہ مزدوروں کے معاملے سے اپنا پلہ جھاڑ لیا ہے۔
انھوں نے مزدوروں کو بسوں کے ذریعے ان کے گھروں تک پہنچانے کے حکومت کے اعلان کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ ناممکن عمل ہے۔ ان کے مطابق، صرف مہاراشٹرا میں 25 لاکھ بہاری مزدور ہیں۔ راجستھان کا کہنا ہے کہ اس کے یہاں ڈھائی لاکھ ورکر ہیں۔ کیرالہ میں چار، پنجاب میں چار، اڑیسہ میں سات اور آسام میں ڈیڑھ لاکھ ورکرز ہیں۔
سنگھوی نے کہا کہ لاکھوں مزدوروں کو بسوں کے ذریعے پہنچانے میں تین سال لگ جائیں گے۔ انھوں نے اس کے لیے خصوصی بسیں چلانے کا مطالبہ کیا اور حکومت پر الزام عائد کیا کہ اس نے اس اعلان سے قبل کوئی ہوم ورک نہیں کیا۔
مزدوروں کے حقوق کے لیے سرگرم سیاسی کارکن اور آل انڈیا کسان سبھا کے قومی جنرل سکریٹری، اتل کمار انجام نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق، تقریباً 70 ہزار مزدور ایک ماہ تک پیدل چل کر گجرات کے سورت سے جھارکھنڈ کے رانچی، جمشید پور اور اترپردیش کے گورکھپور پہنچے ہیں۔
ان کے بقول، ''جب وزیر اعظم نے لاک ڈاون کا اعلان کیا تھا تو کہا تھا کہ کسی کو ملازمت سے نہیں نکالا جائے گا، کسی کی تنخواہ نہیں روکی جائے گی اور مکان مالکان اپنے کرائے داروں کو نہیں نکالیں گے۔ لیکن، آج صورت حال یہ ہے کہ لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔ ان کی ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں۔ بہت سے مکان مالکوں نے کرائے داروں کو نکال دیا ہے۔ جن کے پاس کرایہ ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں انھوں نے خود ہی مکان خالی کر دیے ہیں''۔
انھوں نے بتایا کہ لوگ اپنے گھروں کو پہنچنے کے لیے ہزار پانچ سو کلومیٹر تک پیدل چل رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس مصیبت کی گھڑی میں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کرونا سے پہلے بھوک ان کو مار دے گی۔ سیکڑوں کلومیٹر پیدل چلنے کی وجہ سے متعدد افراد کے فوت ہو جانے کی خبریں ہیں۔
اتل کمار انجان کے مطابق، لاک ڈاون کی وجہ سے 25 سے 30 کروڑ افراد بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور یہ کہ کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد کم از کم 25 کروڑ ہے۔ لیکن آج ان کے پاس کام نہیں ہے۔
حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جن مزدوروں میں کرونا کے وائرس نہیں پایا جائے گا انہیں بسوں کے ذریعے ان کے گھروں تک پہنچایا جائے گا۔ لیکن، اتل کمار انجان کے خیال میں بسوں سے لوگوں کو بھیجنا درست نہیں ہے۔ اس صورت میں سماجی فاصلے کو قائم رکھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ریاست جھارکھنڈ کے 30 لاکھ مزدور دوسری ریاستوں میں کام کرتے ہیں۔ ان کو بسوں سے کیسے بھیجا جا سکے گا۔
ادھر حکومت کی جانب سے بسیں چلانے کے اعلان سے ان مزدوروں میں خوشی کی کوئی لہر نہیں دوڑی۔ مدھیہ پردیش کے بگلا گھاٹ ضلع کے ایک مزدور دیویندر کمار سونوانے کا کہنا ہے کہ بیس روز قبل ہمارے لوگوں نے حکومت کے پاس جا کر اپنے نام پتے لکھوائے تھے۔ لیکن، ابھی تک کچھ نہیں ہوا اور ہم لوگ تین روز سے سڑک پر پڑے ہوئے ہیں کہ حکومت کا کوئی ذمہ دار آئے اور ہمیں ہمارے گھروں تک پہنچانے کے لیے لے جائے۔
دہلی میں حکومت کی جانب سے متعدد مقامات پر مزدوروں کے لیے کھانے کا انتظام کیا گیا ہے، لیکن رپورٹوں کے مطابق، ''کچھ کو کھانا ملتا ہے، کچھ کو نہیں''۔
دہلی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ڈیڑھ لاکھ افراد کا کھانا یومیہ تیار کراتی ہے۔ لیکن میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ کھانا بہت کم ملتا ہے اور دو افراد کے کھانے میں پانچ پانچ چھ چھ افراد کا کنبہ کھاتا ہے۔
مرکزی حکومت نے غریبوں کے لیے ایک لاکھ 70 ہزار کروڑ روپے کے پیکج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت مزدوروں کو مفت کھانا اور دوسری اشیا فراہم کی جانی تھیں۔ لیکن، میڈیا رپورٹوں کے مطابق، غریبوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں مل پا رہا ہے۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھو رام راجن کا کہنا ہے کہ لاک ڈاون سے متاثر ہونے والے غریبوں کی زندگی بچانے کے لیے 65 ہزار کروڑ روپے کی ضرورت ہوگی۔