کثیر مالی خسارے کی صورتحال کے پیشِ نظر، عراق کے کُرد حکام نے ایران سے ہنگامی معاشی اعانت کی درخواست کی ہے۔ یہ بات کرد اور ایرانی ذرائع نے بتائی ہے۔
یہ استدعا پچھلے موسم خزاں کے دوران سکیورٹی پر میونخ میں ہونے والے اجلاس کے دوران کی گئی تھی، جہاں کرد اور ایرانی اہل کاروں کی آپس میں بات چیت ہوئی۔ تاہم، ذرائع کے مطابق، اُس وقت اس گفتگو کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا، چونکہ ایران کُرد تیل کی آمدن میں سے اپنا حصہ طلب کر رہا تھا۔
کُرد علاقے کے لیے ایران کے نمائندے، ناظم دباکس نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ بجٹ خسارے کو پوارا کرنے کے لیے کُرد اہل کاروں نے ایرانیوں سے مدد مانگی تھی۔
دباکس نے وی او اے کو بتایا کہ ’’ہمارے ذرائع نے ایرانی حکام سے نجی ملاقاتوں میں مالی بحران اور اپنی ضرورت کے بارے میں کرد عوام کا پیغام پہنچایا ہے‘‘۔
دباکس کے بقول، ’’اسلامی جمہوریہٴ ایران نے کردستان علاقائی حکومت کو قرضے میں بڑی رقوم دینے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے، جو کہ کردستان میں اُن کمپنیوں کے ذریعے فراہم کیے جائیں گے، جب کہ ہماری حکومت اِن رقوم کی ادائگی تیل کی صورت میں کرے گی‘‘۔
دباکس کے مطابق، ایرانی پیش کش کا ذکر اُس وقت سامنے آیا جب اکتوبر 2015ء میں میونخ میں سکیورٹی کانفرنس جاری تھی جس میں کُرد وزیر اعظم نسروان بارزانی نے وہاں کا دورہ کیا۔
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ دونوں فریق نے اس معاملے کی تفصیل کرد علاقے کے دارالحکومت، اربیل میں ہونے والی دوسری ملاقات کے دوران طے کی۔
متعدد اعلیٰ سطحی کرد حکام جن سے ’وائس آف امریکہ‘ نے رابطہ کیا، جن میں معاون وزیر اعظم شامل تھے، تبصرے سے احتراز کیا۔
کرد علاقہ مغرب نواز خطہ ہے جو داعش کے خلاف لڑائی میں امریکہ کا انتہائی مؤثر اتحادی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث اس سال کردوں کو سخت مالی بحران درپیش ہے۔ داعش کے شدت پسندوں کے خلاف یہ ایک مہنگی لڑائی ہے جب کہ عراق اور شام کی صورت حال کے نتیجے میں تقریباً 18 لاکھ مہاجرین آ چکے ہیں۔
کرد حکام کے اندازے کے مطابق، اُن کے ادارے پر 15 سے 18 ارب ڈالر قرضہ چڑھ چکا ہے۔
ایران کے پاسداران انقلاب کے ایک سابق رُکن نے ’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ پہلے مرحلے میں ایرانیوں نے چھوٹے قرضہ جات کی صورت میں پانچ کروڑ ڈالر دینے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے، جب کہ وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ اس کے بدلے تیل کی آمدن اور علاقے میں رفائنریز کی تنصیب میں تعاون کا کوئی سلسلہ طے ہو‘‘۔
نقدی کے لیے پریشان کردوں نے اس سال واشنگٹن کے سرکاری دورے میں اقوام متحدہ سے بھی اِسی قسم کی فوری مدد کی اپیل کی تھی۔
کردوں نے خبردار کیا ہے کہ بحران کے نتیجے میں اُن کے لڑاکوں کا عزم متاثر ہو سکتا ہے، جنھیں کئی ماہ سے تنخواہ نہیں دی جا سکی، اور ایسے میں بھی وہ عراق میں موصل کے علاقے کی جانب پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں، جو کہ داعش کا گڑھ ہے۔
امریکی حکومت نے اُن کی گذارش کو سنجیدگی سے لیا ہے اور اُن کی افواج کو ادائگی کے لیے ہر ماہ پانچ کروڑ ڈالر فراہم کرنے کی تجویز دی ہے۔ یہ بات گذشتہ ہفتے ’فارین پالیسی‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔
کرد حکام کے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔
جب دولت اسلامیہ نے سنہ 2014 میں کرد دارالحکومت، اربیل پر حملہ کیا تھا، تو ایران نے کرد افواج کو اسلحہ اور بارود فراہم کیا تھا۔ بعدازاں، امریکی فوج نے اُس کرد کارروائی میں فضائی مدد فراہم کی تھی۔
اگست، 2014ء میں ایرانی وزیر خارجہ، محمد جواد ظریف کے ہمراہ مشترکہ اخباری کانفرنس کرتے ہوئے، کرد صدر مسعود بارزانی نے کہا تھا کہ ’’ہم نے اسلحے کی درخواست کی اور ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے ہمیں اسلحہ و بارود فراہم کیا‘‘۔