عالمی عدالت انصاف نے کہا ہے کہ پاکستان میں زیر حراست اور فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے کلبھوشن یادو کی سزا پر حتمی فیصلہ آنے تک عمل درآمد نا کیا جائے۔
نیدرلینڈ کے شہر دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف ’آئی سی جے‘ نے فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان کے اس موقف کو مسترد کیا کہ یہ معاملہ ’آئی سی جے‘ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کی سماعت کے دوران دونوں فریقوں کے دلائل سنے جائیں گے۔
حج رونی ابراہیم نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کرے کہ اس عدالت کے حتمی فیصلے سے قبل کلبھوشن یادو کی سزائے موت پر عمل درآمد نا کیا جائے۔
جج نے کہا کہ کلبھوشن یادو تک سفارتی رسائی حاصل کرنا بھارت کا حق ہے۔
معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کے لیے اس وقت عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو نظر انداز کرنا آسان نہیں۔
’’(پاکستان کے لیے) اب راستہ ایک ہے کہ عالمی عدالت انصاف کے حکم پر عمل کرے، یہ تو ممکن نہیں ہے کہ ہم فیصلے کو نظر انداز کریں،پھانسی کی سزا بالکل نہیں دینی چاہیے جب تک حتمی فیصلہ نا آ جائے اور اس دوران عالمی عدالت کے فیصلے کے مطابق قونصلر رسائی بھی دینا ہو گی۔‘‘
عالمی عدالت انصاف کے اس عبوری حکم نامے کے بعد پاکستان کی وزارت خارجہ نے اٹارنی جنرل کا بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اس معاملے میں موجودہ صورت حال کو برقرار رکھا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ عدالت کے احترام میں پاکستان نے اس کارروائی میں حصہ لیا۔
اٹارنی جنرل کے بیان میں کہا گیا کہ جہاں تک جمعرات کو سامنے آنے والے فیصلے کا تعلق ہے اس سے ’کمانڈر یادیو‘ کے مقدمے کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
بیان میں کہا گیا کہ عدالت کو 15 مئی کو یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ قانون کے مطابق کلبھوشن یادیو کو دفاع کے تمام مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
اٹارنی جنرل کے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان اس مقدمے کو منتقی انجام تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہے۔
اس فیصلے سے کچھ دیر قبل ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں ایک تجدید شدہ یا ’ریوائزڈ ڈکلریشن جمع کروایا، جو اُن کے بقول 1962 میں داخل کروائے گئے ڈکلریشن سے زیادہ جامع ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ نئے ڈکلریشن میں جاسوسی اور سلامتی سے متعلق دیگر اُمور کے بارے میں شقیں شامل ہیں۔
بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ کلبھوشن یادو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ایران میں تجارت کر رہے تھے جہاں سے پاکستان نے اُنھیں اغوا کیا۔
کلبھوشن کو اغوا کرنے سے متعلق بھارت کے دعوے کو پاکستان کی طرف سے رد کرتے ہوئے کہا جاتا رہا ہے کہ تین مارچ 2016 کو انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کارروائی کر کے بھارتی شہری کلبھوشن یادیو کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا، جو مبینہ طور پر بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کا ایجنٹ اور بھارتی بحریہ کا حاضر سروس ملازم ہے۔
اگرچہ بھارت نے یہ تسلیم کیا تھا کہ کلبھوشن بھارتی بحریہ کا سابق افسر ہے تاہم بھارت کی طرف سے اس الزام کو مسترد کیا جاتا رہا کہ کلبھوشن کا تعلق 'را' سے ہے۔
پاکستان میں گرفتاری کے بعد کلبھوشن یادو کے خلاف ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل‘ یعنی ایک فوجی عدالت میں آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا گیا اور اپریل 2017 میں اُنھیں موت کی سزا سنائی گئی۔
فوج کی طرف سے کہا گیا تھا کہ کلبھوشن کو قانون کے مطابق دفاع کے لیے وکیل کی سہولت بھی فراہم کی گئی تھی۔ کلبھوشن اپنی اس سزا کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔
بھارت کا یہ موقف ہے کہ کلبھوشن یادیو تک سفارتی رسائی کے لیے پاکستان سے 15 مرتبہ درخواست کی گئی لیکن اُسے منظور نہیں کیا گیا۔