عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کیس کی سماعت 18 سے 21 فروری تک نیدرلینڈ کے شہر ہیگ میں ہو گی۔ اس اہم سماعت کے لیے پاکستانی وفد ہیگ پہنچ گیا ہے۔
سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی عالمی عدالت میں ایڈہاک جج کے فرائض سرانجام دیں گے۔
عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کیس کی سماعت کے لیے پاکستان کی تمام تیاریاں مکمل ہو گئی ہیں اور پاکستانی وفد ہیگ پہنچ گیا ہے۔
اس اہم کیس میں بھارت 18 فروری کو دلائل کا آغاز کرے گا جس کے بعد پاکستان 19 فروری کو اپنے دلائل دے گا۔ بھارت کے نمائندے ہارش سیلو، 18 فروری کو اپنے دلائل میں بھارتی موقف پیش کریں گے۔ اگلے روز خاور قریشی پاکستان کی جانب سے بھارتی دلائل کے جواب میں پاکستان کا موقف عدالت کے سامنے رکھیں گے۔
اٹارنی جنرل انور منصور پاکستانی وفد کی قیادت کریں گے جبکہ ڈائریکٹر جنرل ساؤتھ ایشیا ڈاکٹر محمد فیصل دفتر خارجہ کی نمائندگی کریں گے۔
پروگرام کے مطابق 20 فروری کو بھارتی وکلاء پاکستانی دلائل پر بحث کریں گے جب کہ اس سے اگلے روز 21 فروری کو پاکستان جواب الجواب دے گا۔
سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان اس کیس میں اپنے دلائل میں یہ کہے گا کہ بھارت اپنی خفیہ ایجنسی را کے افسر کلبھوشن یادیو کی ریٹائرمنٹ کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکا، جب کہ اس نے مبارک حسین پٹیل کے نام سے جاری کیے جانے والے اس کے پاسپورٹ کا بھی تسلی بخش جواب نہیں دے سکا۔
کلبھوشن یادیو نے حسین مبارک پٹیل کے نام سے 17 مرتبہ دہلی کا سفر کیا۔ اسے مستند پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا، جس پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت کے دعویٰ میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ کلبھوشن یادیو ایک بے قصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا۔ لیکن بھارت اس کے اغوا کا بھی کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا۔ اسی طرح بھارت یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا کہ کہ وہ بھارتی بحریہ سے ریٹائر ہو چکا تھا۔ بھارت یہ بتانے سے بھی قاصر رہا کہ یادیو کب اور کس طرح ریٹائر ہوا۔ بھارت اس بات کی بھی وضاحت نہیں کر سکا کہ پکڑے جانے کے وقت کلبھوشن کی عمر 47 برس تھی۔
اس کیس میں پاکستان یا بھارت مزید دستاویزات عالمی عدالت میں جمع نہیں کروا سکتے۔ صرف پہلے سے جمع کروائے گئے شواہد اور دستاویزات کی بنیاد پر ہی کارروائی ہو گی۔
عالمی عدالت انصاف اس کیس میں پہلے ہی کلبھوشن یادیو کی موت کی سزا کے خلاف حکم امتناع جاری کر چکی ہے۔
اس سلسلے میں دفترخارجہ کے حکام کا کہنا ہے کہ کلبھوشن کی سزائے موت پر عمل درآمد میں پاکستان کو کوئی جلدی نہیں ہے کیونکہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے بعد سزا کے خلاف اپیل ابھی آرمی چیف کے پاس زیرالتوا ہے، جب کہ اس کے بعد کلبھوشن صدر پاکستان سے بھی اپنی سزا کی معافی کی اپیل کر سکتا ہے۔اور اگر دونوں فورمز سے انکار ہو جائے تو بھی کلبھوش کے پاس پاکستانی عدالتوں سے رجوع کرنے کا موقع موجود ہے، اس لیے حکم امتناع کا پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
امکان ہے کہ عالمی عدالت سماعت مکمل ہونے کے بعد تین سے چار ماہ میں فیصلہ سنائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت نے جو بھی فیصلہ کیا، پاکستان اس کا احترام کرے گا۔
پاکستان نے کلبھوشن کی والدہ اور بیوی کے ساتھ ملاقات کی بھی اجازت دی تھی لیکن اس کی جانب سے بار بار کی درخواستوں کے باوجود پاکستان نے اب تک قونصلر تک رسائی نہیں دی۔ اگر عالمی عدالت انصاف کی طرف سے قونصلر تک رسائی دینے کا کہا جاتا ہے تو پاکستان اس کا پابند ہو گا۔