دہلی ہائی کورٹ نے مفاد عامہ کی اس درخواست کو خارج کر دیا جس میں عدالت سے یہ گذارش کی گئی تھی کہ وہ مرکزی حکومت کو ہدایت دے کہ وہ کل بھوشن جادھو کا معاملہ، جنھیں جاسوسی اور تخریبی سرگرمیوں کے الزام میں پاکستان میں سزائے موت سنائی گئی ہے، عالمی عدالت میں لے جائے۔
درخواست داخل کرنے والے سماجی کارکن راہل شرما نے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ جادھو تک سفارتی رسائی کی سہولت فراہم کی جائے۔
ہائی کورٹ کی کارگزار چیف جسٹس گیتا متل اور جسٹس انو مہلوترہ کے بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایسے میں جبکہ بھارتی حکومت اپنے شہری کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، اس قسم کی ہدایت دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
عدالت نے درخواست خارج کرنے کے ساتھ ساتھ اس بارے میں میڈیا کو تفصیلات بتانے پر اپنی ناراضگی بھی ظاہر کی۔ عدالت نے کہا کہ یہ معاملہ حکومت کے ماہرین پر چھوڑ دیا جانا چاہیئے، اس میں ہمیں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔
’ساؤتھ ایشین مائنارٹیز لائرس ایسوسی ایشن‘ (ساملا) کے سکریٹری جنرل اور دہلی ہائی کورٹ کے سابق ایڈیشنل پبلک پراسیکیوٹر فیروز غازی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’دہلی ہائی کورٹ نے درست فیصلہ کیا ہے‘‘۔
ایسے میں جبکہ حکومت اس سلسلے میں ہر محاذ پر کام کر رہی ہے اور جادھو کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے، عدالت کا یا کسی کا اس میں مداخلت کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیے، عدالت نے جو فیصلہ کیا ہے بالکل درست کیا ہے۔ ایسی درخواستوں سے دوسری طرف توجہ مبذول ہو جاتی ہے اور اصل معاملے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’جب معاملہ دو ملکوں کے شہریوں کا ہو تو بین الاقوامی قوانین کی بھی بہرحال پابندی کی جانی چاہیئے‘‘۔
خیال رہے کہ پاکستان کا کہنا ہے کہ کل بھوشن جادھو کے خلاف عدالتی کارروائی کے دوران تمام قانونی ضابطوں کی پاسداری کی گئی ہے۔
دریں اثنا بھارتی وزارت خارجہ نے پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر سید حیدر شاہ کو بدھ کے روز طلب کیا اور کل بھوشن جادھو تک سفارتی رسائی فراہم کرنے کا ایک بار پھر مطالبہ کیا۔ وزارت خارجہ کے اہل کاروں نے ان سے کہا کہ جادھو بے قصور ہیں اور ان کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
اس سے قبل اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر گوتم بمباوالے نے پاکستانی سکریٹری خارجہ سے ملاقات کی تھی اور جادھو پر عائد فرد جرم اور فوجی عدالت کے فیصلے کی نقول طلب کی تھیں۔ انھوں نے قونصلر رسائی کی سہولت کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
پاکستان بھارت کے اس دعوے کو مسترد کرتا ہے کہ جادھو بے قصور ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ انھیں اقبالیہ بیان اور دیگر شواہد کی بنیاد پر سزائے موت سنائی گئی ہے۔